نصابِ تعلیم کے اجزائے ترکیبی
محمد مبارک عبد الستار
18-06-2025
نصابِ تعلیم کے اجزائے ترکیبی
مقدمہ
الحمد للّٰہ ربّ العالمین، والصلاۃ والسلام علی
سیدنا محمد، وعلٰی آلہ وأصحابہ الأطہار، ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین…
أما
بعد!
تعلیم کسی بھی قوم کی فکری
ساخت، تمدنی شناخت اور تہذیبی بقاء کی بنیاد ہوتی ہے۔ اور اس نظامِ تعلیم کی اساس،
اُس کا "نصاب" (Curriculum) ہوتا ہے جو نہ صرف طلبہ کی علمی تربیت کا
ضامن ہوتا ہے بلکہ ان کی فکری، اخلاقی، سماجی اور روحانی تعمیر میں بھی مرکزی
حیثیت رکھتا ہے۔ تعلیمی
عمل (Educational Process) ایک جامع، ہمہ جہت اور ارتقائی نظام ہے جو
فرد کی ذہنی، اخلاقی، روحانی اور معاشرتی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
قرآن و حدیث اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تعلیم محض معلومات کی منتقلی نہیں
بلکہ بندگیِ رب، تزکیۂ نفس، کردار سازی، اور اصلاحِ معاشرہ کا ایک فعال ذریعہ
ہے۔اسی تناظر میں اس مضمون میں ہم نصابِ تعلیم (Curriculum) اور تعلیمی نظام کے مختلف
پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے، تاکہ خصوصاً مدارسِ اسلامیہ اور عموماً
دیگر دینی و عصری تعلیمی ادارے اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
یہ مقالہ دراصل جامعہ
اسلامیہ مدینہ منورہ کے شعبۂ تعلیم میں سنہ 2012-13 کے دوران عربی زبان میں تحریر
کیے گئے ایک تحقیقی مقالے کا اردو ترجمہ اور تعلیمی اضافہ (Educational Extension) ہے، جو ماہرین
تعلیم اور ممتاز پروفیسروں کی نگرانی میں مکمل کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کا مقصد
ہندوستان کے مدارس کے لیے ایک ایسا تعلیمی خاکہ پیش کرنا ہے جو دینی اقدار سے جڑا
ہوا ہو اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہو۔ماہرینِ تعلیم کے مطابق، تعلیمی عمل سات
(7) بنیادی ستونوں پر قائم ہوتا ہے، جن میں شامل ہیں:
معلّم (Teacher)طالبِ علم, (Learner)نصابِ تعلیم
(Curriculum)طریقۂ
تدریس (Teaching Methods),ماحولِ تعلیم (Learning Environment)تعلیمی ذرائع و
وسائل (Instructional Resources) اورتشخیص و امتحان (Assessment & Evaluation)
زیرِ نظر مقالہ اُن اہم
اور مؤثر شعبہ جات کا تجزیاتی و تحقیقی جائزہ ہے جو نصابِ تعلیم کی ترقی، تشکیل،
نفاذ اور تقویم میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں، اور جن کی روشنی میں ایک متوازن،
مؤثر اور اسلامی اقدار پر مبنی نصاب کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔
18-06-2025
پہلا باب: تعلیمی
عمل اور اس کے بنیادی ستون
تعارف (Introduction)
تعلیمی عمل (Educational Process) ایک جامع اور
ہمہ جہت عمل ہے، جو محض علم کی ترسیل پر مبنی نہیں، بلکہ ایک مربوط اور منظم کوشش
ہے، جس کا مقصد فرد کی علمی، فکری، اخلاقی، جذباتی، سماجی، اور عملی صلاحیتوں کی
نشوونما کرنا ہوتا ہے (UNESCO, 2015)۔ یہ عمل مختلف عناصر (Components) کے درمیان تفاعل (Interaction) اور تعاون پر مبنی ہوتا
ہے، جو ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک عنصر کمزور
ہو جائے، تو پورے تعلیمی عمل پر منفی اثر پڑتا ہے۔
تعلیمی عمل کے بنیادی ستون (Main
Pillars of the Educational Process)
ماہرین تعلیم (Educational Theorists) کے مطابق
تعلیمی عمل سات (7) بنیادی ستونوں پر قائم ہوتا ہے، جنہیں ہم ایک مربوط تعلیمی نظام
(Integrated System) کے جزو لاینفک کہہ سکتے ہیں۔ یہ ستون درج ذیل ہیں:
1️⃣ معلم: (The
Teacher) تعلیمی
نظام کا مرکز و محور معلم ہے، جو علم کا نقیب، کردار کا معمار، اور سیکھنے کا محرک ہوتا ہے معلم: طلبہ کی رہنمائی کرتا ہے, تدریسی عمل کو منظم کرتا ہے اوراخلاقی اقدار کی عملی تصویر بن کر
طلبہ کے سامنے آتا ہے۔معلم صرف معلومات کا منتقِل نہیں بلکہ رہنما، مصلح، اور محقق
ہے۔
2️⃣ متعلم (The
Learner)
متعلم تعلیمی عمل کا مرکز (Focus)
ہے۔متعلم
سیکھنے کی سرگرمیوں میں فعال شرکت (Active Participation) لازمی ہے۔خود سیکھنے
(Self-Directed Learning) کی اہلیت اور جستجو ضروری ہے اورگروہی و سماجی
تربیت کا شعور ہونا چاہیے۔تعلم محض علم کا لینے والا (Passive Recipient) نہیں بلکہ اس
کا خالق اور حصہ دار (Co-Creator) ہے۔
3️⃣ نصاب تعلیم
(Curriculum)
نصاب وہ منصوبہ بند علمی ڈھانچہ ہے، جو تعلیمی
اہداف کے مطابق تیار کیا جاتا ہے۔نصاب معاشرتی و سائنسی ضروریات کے مطابق علم،
ہنر، اور اقدار کا متوازن امتزاج اورقابلِ تجدید (Dynamic) ہونا چاہیے۔نصاب تعلیمی
سفر کا راستہ ہے، جو سیکھنے کی منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
4️⃣ تدریسی طریقے
(Teaching Methods)
تدریسی طریقے علم کی ترسیل اور سیکھنے کے فروغ کے
لیے اہم وسیلہ ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق، تدریسی طریقے:متنوع (Varied) اور طلبہ کے لحاظ سے موزوں
ہونے چاہییں۔تدریسی طریقے علم کو زندہ تجربہ میں بدلنے کا ذریعہ ہیں۔
5️⃣ تدریسی وسائل
(Teaching Aids)
تعلیم کے عمل کو مؤثر بنانے کے لیے مختلف تدریسی
وسائل ضروری ہیں، جیسے:سمعی و بصری آلات (Audio-Visual Aids) ماڈلز، چارٹس،
تجرباتی آلات,ڈیجیٹل ٹولز- (Smart Boards, Apps, Videos)تدریسی وسائل تصوراتی علم
کو قابلِ مشاہدہ حقیقت میں بدلتے ہیں۔
6️⃣ تشخیص
(Evaluation & Assessment)
تشخیص نہ صرف سیکھنے کے نتائج کی پیمائش کا ذریعہ
ہے بلکہ تدریسی عمل کی بہتری کے لیے فیڈبیک بھی فراہم کرتی ہے۔ اس میں شامل ہیں:تحریری و زبانی
امتحانات,عملی سرگرمیاں، پروجیکٹس، مشاہدہ,خود تشخیص (Self-Assessment) اور ساتھیوں کی تشخیص
-(Peer
Assessment)شخیص
صرف نمبر دینے کا عمل نہیں بلکہ سیکھنے کے معیار کا آئینہ ہے۔
7️⃣ تعلیمی ماحول
(Learning Environment)
تعلیمی ماحول ایک ایسا ماحول ہے جو سیکھنے کے لیے
سازگار فضا پیدا کرتا ہے-تعلیمی ماحول وہ خاک ہے، جس میں علم کا پودا نشوونما پاتا ہے۔
تعلیمی عمل کا حسن اس کی جامعیت، توازن، اور ہم
آہنگی میں پوشیدہ ہے۔ معلم، متعلم، نصاب، تدریسی طریقے، وسائل، تشخیص، اور تعلیمی
ماحول - یہ سب ستون ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہو کر تعلیمی عمل کی عمارت کو مضبوط
کرتے ہیں۔ اگر کسی ایک ستون میں کمزوری آ جائے تو پوری عمارت لرزنے لگتی ہے۔لہٰذا،
معیاری تعلیم کے حصول کے لیے ان تمام ستونوں کو مضبوط بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حوالہ جات (References)
1.
ابن خلدون (1377ھ). المقدمہ. دارالمعارف۔
2.
Freire, P. (1993). Pedagogy
of the Oppressed. Continuum.
3.
UNESCO (2015). Rethinking
Education: Towards a Global Common Good.
4.
Bloom, B. (1956). Taxonomy
of Educational Objectives. Longman.
5.
Vygotsky, L. (1978). Mind
in Society. Harvard University Press.
6.
نصیر، خالد
(2020). تعلیم
میں جدید رجحانات. الفیصل پبلی کیشنز۔
7.
Taba, H. (1962). Curriculum
Development: Theory and Practice. Harcourt Brace.
8.
OECD (2017). The
Learning Environment: A Key Component of Education.
دوسرا باب: نصابِ تعلیم کے اجزائے ترکیبی
1.
اہدافِ
نصاب (Objectives of Curriculum)
لہٰذا،
نصابِ تعلیم کے مقاصد (Aims and Objectives of Curriculum) کو سمجھنا نہایت اہم ہے،
کیونکہ یہ تعلیمی عمل کی سمت اور روح کو طے کرتے ہیں۔
نصاب کے اہداف: وہ مطلوبہ رویّے (Behavioral Outcomes) ہیں جن کا حصول تعلیمی تجربات کے بعد متعلم
میں متوقع ہوتا ہے۔ اہداف ہی وہ بنیادی رہنما خطوط فراہم کرتے ہیں جو نصاب کی
منصوبہ بندی سے لے کر اس کے حتمی جائزے تک تمام مراحل میں رہنمائی کرتے ہیں۔ نصابِ
تعلیم کے مقاصد: تعریف اور اقسام
نصابِ تعلیم کی تعریف (Definition of Curriculum)
تعلیم کے ماہرین نے نصاب کی کئی تعریفات پیش کی ہیں:
امام ابن تیمیہؒ )متوفی 728ھ:(حقیقی علم وہ ہے جو انسان کو حق کی پہچان
کرائے اور عمل کے میدان میں اسے اس پر ثابت قدم رکھے۔"اس نظریہ کی روشنی میں
نصابِ تعلیم کو صرف نظری نہیں بلکہ عملی ہونا چاہیے، جو ایمان، عبادت، اخلاق، اور
معاشرت کا جامع امتزاج ہو۔
امام شاطبیؒ (متوفی 790ھ) — اصولِ شریعت کے ماہر: "تعلیم کا حقیقی
مقصد مقاصدِ شریعت کا حصول ہے: یعنی دین کی حفاظت، نفس، عقل، نسل اور مال کی
حفاظت۔"
Taba (1962) کے مطابق:
"Curriculum is a plan for learning."یعنی، نصابِ تعلیم سیکھنے
کے لیے ایک منصوبہ ہے، جس میں تعلیمی مقاصد، تدریسی مواد، اور سرگرمیوں کو مربوط
کیا جاتا ہے۔Hilda
Taba نے
Curriculum
Development میں
ایک مشہور "Taba Model" پیش کیا جو "grassroots approach" کہلاتا ہے۔
ان
کا خیال تھا کہ نصاب سازی نیچے سے اوپر (یعنی اساتذہ سے پالیسی سازوں کی طرف) ہونی
چاہیے۔
John Frank Kerr (1968) کے مطابق:
"Curriculum is all the learning which is planned and guided by the
school."
یعنی،
نصاب وہ تمام سیکھنے کے مواقع ہیں جو اسکول منظم اور رہنمائی فراہم کرتے ہوئے پیش کرتا
ہے۔نصابِ تعلیم ایک منظم منصوبہ ہے، جس کے ذریعے تعلیم کے مقاصد حاصل کیے جاتے
ہیں، اور جس میں مواد، تدریسی سرگرمیاں، اور تشخیصی طریقے شامل ہوتے ہیں۔
نصابِ تعلیم کے مقاصد (Aims and Objectives of Curriculum)
تعریف (Definition of Aims and Objectives)
- Aim ایک جامع
مقصد ہوتا ہے، جو تعلیمی نظام کی عمومی سمت (General Direction) اور فلسفے
کو بیان کرتا ہے۔
- Objective مخصوص اور
قابلِ پیمائش (Specific and Measurable) اہداف
ہوتے ہیں، جو سیکھنے کے نتائج (Learning Outcomes) کو بیان
کرتے ہیں۔
مثال: Aim: طلبہ میں اخلاقی اقدار پیدا کرنا۔ :Objective طلبہ ایمانداری، دیانت داری، اور ذمہ داری کی اہمیت
کو بیان کر سکیں۔
نصابِ تعلیم کے مقاصد کی اہمیت
(Importance of Aims in Curriculum)
- تعلیم کی سمت متعین
کرتے ہیں۔
- طلبہ کی شخصیت سازی
میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
- تدریس و تدریسی وسائل
کے انتخاب میں مدد دیتے ہیں۔
- سیکھنے کے نتائج کی
جانچ (Assessment) میں رہنمائی کرتے ہیں۔
نصابِ تعلیم کے مقاصد کی اقسام (Types
of Curriculum Objectives)
ماہرین تعلیم نے نصاب کے مقاصد کو مختلف اقسام میں
تقسیم کیا ہے، جن میں نمایاں اقسام درج ذیل ہیں:
1.
عمومی مقاصد
(General Objectives)
یہ مقاصد قوم کی نظریاتی، ثقافتی، اور معاشی
ضروریات کی روشنی میں متعین ہوتے ہیں، جیسے:قومی یکجہتی (National Integration)
سماجی انصاف ,(Social Justice)معاشی ترقی
,(Economic
Development) اور حب الوطنی اور قومی تشخص
(Patriotism and National Identity)
2.
خصوصی تعلیمی مقاصد
(Specific Objectives)
یہ مقاصد فرد کی شخصیت کی ہمہ جہتی نشوونما پر توجہ
دیتے ہیں، جیسے:علمی و فکری ترقی (Intellectual Development)جسمانی صحت,
(Physical Health)اخلاقی تربیت (Moral Development) اورخلیقی صلاحیتیں (Creative Abilities)
3.
سلوکی یا عملی مقاصد
(Behavioral / Instructional Objectives))
یہ وہ مقاصد ہیں جو ہر مضمون یا تدریسی یونٹ کے لیے
مخصوص ہوتے ہیں اور عام طور پر Bloom’s Taxonomy کی روشنی میں
تین شعبوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں:
- Cognitive Domain (علمی
شعبہ): علم، فہم، تجزیہ
- Affective Domain (جذباتی
شعبہ): رویے، اقدار، جذبات
- Psychomotor Domain (مہارتی
شعبہ): عملی و جسمانی مہارتیں
مثال:ریاضی کے سبق میں ہدف: "طلبہ دو ہندسوں کے اعداد کو جمع
کرنا سیکھیں گے۔"
نصابِ تعلیم کے مقاصد درحقیقت تعلیمی نظام کی روح
اور بنیاد ہیں۔ یہ نہ صرف نصاب کے مواد اور تدریسی سرگرمیوں کو مربوط کرتے ہیں،
بلکہ فرد، معاشرہ، اور قومی ترقی کے اہداف کو بھی واضح کرتے ہیں۔ لہٰذا، نصاب کی
منصوبہ بندی کرتے وقت مقاصد کی وضاحت، ان کی اقسام کی تفہیم، اور ان کی ترجیحات کو
مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ تعلیم کا عمل محض معلومات کی ترسیل تک محدود نہ
رہے بلکہ ایک جامع انسانی تربیت کا ذریعہ بنے۔
اہدافِ نصاب کی اسلامی اساس:
ü
عقیدۂ توحید اور عبدیتِ
کاملہ کا فروغ |
ü
امت کی قیادت و رہنمائی |
ü
علم و عمل کا ربط |
ü
اجتماعی شعور اور فکری
بصیرت |
ü
تزکیۂ نفس و اخلاقی
تربیت |
ü
اجتہاد و تحقیق کی تربیت |
ü
دینی و دنیاوی توازن |
ü
امت کے علمی ورثہ کی
حفاظت |
Ø توحید
پر مبنی ایک صالح انسان کی تشکیل:اسلامی نصاب کا اولین مقصد یہ ہے کہ طالب علم کی شخصیت کی بنیاد
توحید، ایمان، اور عقیدۂ صحیحہ پر ہو۔
امام محمد بن صالح العثیمینؒ لکھتے ہیں:
"التعليم في الإسلام لا
يهدف فقط إلى اكتساب المعرفة، بل إلى تحقيق العبودية لله في العلم والعمل."
)اسلامی
تعلیم کا مقصد محض علم حاصل کرنا نہیں بلکہ علم و عمل دونوں میں اللہ کی بندگی کو
قائم کرنا ہے۔(
“The purpose of Islamic education is not merely
to acquire knowledge but to establish servitude to Allah through both knowledge
and action.”
اسلامی تعلیم کا بنیادی ہدف ایک ایسا انسان تیار
کرنا ہے جو نہ صرف اپنے لیے نفع مند ہو، بلکہ دوسروں کے لیے بھی خیر و بھلائی کا
ذریعہ بنے۔ ایسا انسان جو علم کی روشنی سے اپنے دل و دماغ کو منور کرے اور اس
روشنی کو دوسروں تک پہنچائے۔ وہ معاشرے میں امن، محبت، انصاف اور رواداری کی فضا
قائم کرے۔ دوسروں کے دکھ درد کو سمجھے اور ان کی مدد کرے، خصوصاً غریبوں، کمزوروں،
اور محروم طبقات کی خدمت کو اپنا فرض سمجھے۔تعلیم انسان کو خود شناسی اور خدا
شناسی کے راستے پر ڈالتے ہوئے یہ سکھاتی ہے کہ علم کا مقصد اللہ کی رضا حاصل کرنا اور
اس کی مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی قوم، ملک،
اور ملت کا وفادار اور خدمت گزار بنے۔ وہ علم کو طاقت کا ذریعہ نہیں بلکہ خدمت اور
قربانی کا وسیلہ سمجھے۔ یہی وہ اعلیٰ مقصد ہے جو اسلامی تعلیم کے ذریعے ایک صالح
اور نیک انسان کی تیاری کا نصب العین ہے۔
Ø علم
و عمل کی یکجائی:نصاب کا مقصد یہ نہیں کہ محض معلومات دی جائیں، بلکہ یہ ہے کہ
طالب علم کا عمل بھی اس علم کے تابع ہو۔ مولانا ابوالکلام آزادؒ نے کہا تھا": تعلیم وہ ہے جو انسان کی روحانی، اخلاقی اور
سماجی حیثیت کو بہتر بنائے؛ بصورت دیگر وہ معلومات کا ڈھیر ہے، علم نہیں۔"
Ø تزکیۂ
نفس اور اخلاقی تربیت:قرآنِ کریم میں فرمایا گیا :"وَيُزَكِّيهِمْ
وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ) " سورۃ الجمعہ: 2(
یعنی
نصاب کا ایک بنیادی مقصد تزکیہ (Purification of Soul) بھی ہے، نہ کہ صرف تعلیم۔شیخ صالح الفوزان
فرماتے ہیں": المدارس الإسلامية يجب أن تركز على إصلاح القلوب
قبل العقول، فإنما العلم النافع ما صحبه عمل وتقوى."
Ø دینی
و دنیاوی توازن:اسلام علم کو دینی اور دنیاوی خانوں میں تقسیم نہیں کرتا۔ تعلیم
کا ہدف وہ انسان تیار کرنا ہے جو دنیا میں کامیاب ہو اور آخرت میں سرخرو۔مولانا
مناظر احسن گیلانیؒ فرماتے ہیں:"اسلام میں علم کی کوئی حد بندی نہیں، وہ طبیعات،
ریاضیات، معاشیات اور دینیات سب کا احاطہ کرتا ہے، شرط صرف نیت اور مقصد کی درستی
ہے۔"
Ø امتِ
مسلمہ کی قیادت و رہنمائی کی تیاری:مدارس کا نصاب ایسا ہو کہ وہ ایسی قیادت پیدا کرے جو امت کی
فکری، دینی، اور سماجی رہنمائی کرسکے۔شیخ ابن بازؒ نے فرمایا":طلاب العلم في بلاد
الإسلام هم أمل الأمة في حفظ الدين وإصلاح المجتمع )“اسلامی ممالک کے طلباء ہی
دین کے تحفظ اور معاشرے کی اصلاح کی امید ہیں(
Ø اجتماعی
شعور اور امت کے مسائل سے آگاہی:نصاب کا ایک اہم ہدف یہ بھی ہے کہ طلباء کو امت کے اجتماعی
مسائل کا ادراک ہو اور ان کے حل کے لیے علمی و عملی تیاری ہو۔مولانا شبلی نعمانیؒ
کہتے ہیں:"نصاب تعلیم کا مقصد فرد کی نہیں، قوم کی تیاری ہے،
جو تب ہی ممکن ہے جب تعلیم مقصدِ حیات سے جُڑی ہو، نہ کہ محض امتحان سے۔"
Ø تحقیقی
و اجتہادی صلاحیتوں کی تربیت:مدارسِ اسلامیہ کو چاہیے کہ وہ طلباء میں تحقیق، اجتہاد اور
جدید تقاضوں کے مطابق فکری صلاحیت پیدا کریں۔مولانا سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:"مدرسہ وہ ہونا
چاہیے جو عقل و نقل کے درمیان توازن پیدا کرے، تقلید کے ساتھ تحقیق کی جرأت بھی
پیدا کرے۔"
Ø
امت کے علمی ورثہ کی حفاظت
و ترویج:مدارس کا نصاب امت کے علمی، فکری اور ثقافتی ورثہ کو محفوظ
رکھنے، اسے سمجھنے اور آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ ہو۔اسلامی نصاب کا
مقصد صرف معلومات کی فراہمی نہیں، بلکہ فکر و شعور کی بیداری، اخلاق و عمل کی
اصلاح، اور امت کی قیادت کی تیاری ہے۔ مدارسِ اسلامیہ کو چاہیے کہ وہ اپنے نصاب کو
انہی مقاصد کے مطابق ترتیب دیں، تاکہ وہ دین کے محافظ، قوم کے معمار، اور انسانیت
کے خیرخواہ پیدا کریں۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) کے اہداف
NEP 2020 کے مطابق تعلیم کے مقاصد
میں درج ذیل پہلو شامل ہیں:
1.
Holistic Development – یعنی طلباء کی
جسمانی، ذہنی، جذباتی اور تخلیقی نشو و نما۔
2.
Skill-based Learning – عملی مہارت، Coding، Data Handling، Vocational Skills
پر
زور۔
3.
Critical Thinking – تنقیدی فکر اور
مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا۔
4.
Flexibility – طلباء کو اپنے
مضامین منتخب کرنے کی آزادی۔
5.
Multidisciplinary
Education – مختلف
علوم کا ملا جلا نصاب۔
6.
Global Citizenship
Education – عالمی
شہریت، عالمی چیلنجز سے نمٹنے کی تیاری۔
7.
Value-based Education – اخلاقیات اور
دستوری اقدار (Constitutional Values) کی تربیت۔
تقابلی جائزہ
پہلو |
مدارسِ اسلامیہ |
NEP 2020 |
نظریاتی اساس |
توحید، وحی، رسالت، آخرت |
سیکولر، جمہوری، سائنسی |
مقصد تعلیم |
عبدِ صالح کی تیاری، امت
کی رہنمائی |
عالمی مارکیٹ کے مطابق
افراد کی تیاری |
اخلاقی تربیت |
قرآن و سنت کی روشنی میں
تزکیہ |
انسانی حقوق، آئینی
اقدار، سوشل سکلز |
علم کی نوعیت |
وحی و عقل دونوں کو جگہ |
تجرباتی و مادی علم پر
فوکس |
معاشرتی کردار |
امت کی فلاح، اصلاحِ
معاشرہ |
Economic Development، Individual
Growth |
روایت اور ورثہ |
اسلامی علمی ورثے کی
حفاظت |
Classical Indian +
Modern Global Heritage |
قیادت سازی |
دینی قیادت، علمی
رہنمائی |
تکنیکی و صنعتی قیادت |
اجتہاد و تحقیق |
مذہبی متون کی فہم،
اجتہادی صلاحیت |
Scientific Innovation، Research Skills |
تجزیاتی مشاہدات
- مدارسِ اسلامیہ کا
نصاب آخرت کی کامیابی کو اصل ہدف مانتا ہے جبکہ NEP 2020 کا بنیادی زور دنیاوی
کامیابی اور عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کی تیاری پر ہے۔
- NEP 2020 میں
اخلاقیات کا ذکر ہے مگر اس کی بنیاد واضح نہیں؛ جبکہ اسلامی نظامِ تعلیم میں
اخلاقیات کا منبع وحیِ الہی اور اسوۂ رسول ﷺ ہے۔
- مدارس میں تحقیق کا
رجحان کم ہے، جب کہ NEP 2020 میں تحقیقی سرگرمیوں
اور اختراع (Innovation) پر زور دیا گیا ہے؛ مدارس کو اس پہلو
میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
- مدارس اجتماعی شعور
تو دیتے ہیں مگر عصری مسائل پر عملی منصوبہ بندی کی تربیت کم ہے؛
NEP اس
پہلو میں آگے ہے۔
سفارشات
1.
مدارس کو چاہیے کہ وہ اپنے
نصاب کو اس طرح ترتیب دیں کہ وہ NEP کی اچھی باتوں جیسے Critical Thinking، Research
Skills کو
اسلامی دائرے میں شامل کر سکیں۔
2.
نصاب میں سیرت، فقہ، تفسیر
کے ساتھ ساتھ عصری علوم، سماجی سائنس، اور ٹیکنالوجی کا تعارفی مطالعہ شامل کیا
جائے۔
3.
مدارس کی اسناد کو NEP کے تحت تسلیم
کروانے کے لیے مشترکہ فریم ورک پر کام کیا جائے۔
4.
اساتذہ کی تربیت
(Teacher Training) کے خصوصی پروگرامز شروع کیے جائیں تاکہ وہ دونوں نظاموں کی
افادیت سے واقف ہو سکیں۔
5.
اخلاقی تعلیم کو اسلامی
ماخذ سے مربوط کر کے عصری تقاضوں کے مطابق جدید اسلوب میں پیش کیا جائے۔
مدارسِ اسلامیہ اور NEP 2020 کے اہداف میں کئی بنیادی
فرق ہیں، لیکن دونوں کے درمیان ایسی قدریں بھی مشترک ہیں جن سے استفادہ کیا جا
سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس اپنے دینی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے نصاب
میں وہ فکری، سائنسی اور تحقیقی عناصر شامل کریں جو طلباء کو دین و دنیا دونوں میں
کامیاب بنائیں۔
2. موادِ نصاب (Content of
Curriculum)
نصاب کا مواد، اہداف کے حصول کا اولین ذریعہ
ہے۔ دورِ جدید میں اس شعبہ میں متعدد تجربات اور رجحانات نے جنم لیا، مثلاً:
·
ٹیکنیکل نصاب (Technical
Curriculum)، جو ٹیکنالوجی پر مبنی تجربات فراہم کرتا ہے؛
·
انسانی نصاب (Humanistic
Curriculum)، جو انسانی ترقی کو مرکز بناتا ہے؛
·
سرگرمی پر مبنی نصاب، ضم
شدہ مضامین، اور یونٹ پر مبنی نصاب۔
اسلامی نظریے کے مطابق، نصاب کے مواد کی ترقی صرف
علمی اضافے تک محدود نہیں، بلکہ اس میں وحی کے مصادر، اسلامی خصائص اور مقاصد کو
بنیاد بنایا جانا چاہیے۔نصابِ تعلیم کا اصل جوہر اس کا مواد (Content) ہوتا ہے، جو نہ صرف تعلیم
کی روح بلکہ اس کے اہداف کے حصول کا بنیادی ذریعہ بھی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے
موادِ نصاب وہ ہونا چاہیے جو فرد کی فکری، روحانی، اخلاقی، اور عملی تربیت کا
ذریعہ بنے، اور اسے ایک عبدِ صالح، فردِ باکردار، اور امتِ مسلمہ کا مفید رکن بنائے۔
موادِ نصا کی اسلامی
بنیادیں:اسلامی تصورِ نصاب میں مواد کے تعین کے اصول قرآن و سنت سے اخذ
کیے جاتے ہیں۔ اس میں وہ تمام علوم شامل ہیں جو انسان کو:
·
اپنے رب کی معرفت عطا کریں
·
دنیا اور آخرت کی بھلائی
کا شعور دیں
·
سماج میں خیر و اصلاح کا
ذریعہ بنیں ,جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :يَرْفَعِ
اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ )المجادلہ: 11(
اسلامی موادِ نصاب کے
عناصر:
علومِ دینیہ (Islamic Religious Sciences)
شیخ ابن بازؒ فرماتے ہیں):طلبة العلم يجب
أن يبدؤوا بالعلوم التي تُقرّبهم من الله، وعلى رأسها القرآن والحديث والفقه)."طلباء کو چاہیے
کہ وہ ان علوم سے آغاز کریں جو انہیں اللہ کے قریب کریں، اور ان میں سرِفہرست
قرآن، حدیث اور فقہ ہیں(
زبان و ادب (Arabic and Vernacular Languages)
مولانا شبلی نعمانیؒ
فرماتے ہیں:"عربی زبان اسلامی علوم کی کنجی ہے، اور اردو ہماری
تہذیبی شناخت۔ نصاب میں دونوں کی جگہ لازم ہے۔"
عصری علوم (Contemporary Sciences)
تحقیقی و فکری علوم
(Research and Critical Thinking)
شیخ صالح العثیمینؒ نے
فرمایا:"المدارس الإسلامية بحاجة إلى تدريس التفكير النقدي
في إطار الشريعة لحماية الطلاب من الشبهات."
اجتماعی و سماجی علوم
(Social Sciences)
جدید رجحانات: سعودی و عالمی تناظرجامعۃ الامام
محمد بن سعود (ریاض) اور جامعۃ الاسلامیہ مدینہ نے نصاب میں درج ذیل عناصر شامل
کیے:
·
جدید عربی ادب، اسلامی
بینکنگ، عصری فقہی مسائل
·
کمپیوٹر اور انگریزی زبان
·
دعوت و تبلیغ کے جدید
اسلوب
شیخ الفوزان فرماتے ہیں:”نحن بحاجة إلى
تحديث المناهج دون المساس بالثوابت، فالمحتوى لا بد أن يكون جامعاً بين التراث
والتجديد.)"ہمیں نصاب کی تجدید کی ضرورت ہے، بغیر دینی اصولوں
سے چھیڑ چھاڑ کیے؛ مواد ایسا ہو جو ورثہ اور جدت دونوں کا امتزاج ہو۔(
تجاویز و سفارشات
1.
موادِ نصاب کو سہ جہتی
بنیاد پر مرتب کیا جائے:
·
ثوابت: قرآن، حدیث،
فقہ، عقیدہ
·
مرکزیات: عربی، اخلاق،
سیرت، تربیت
·
عصریات: سائنسی و سماجی
علوم، ٹیکنالوجی، تحقیق
2.
مواد کی درجہ بندی ہو:
3.
نصاب میں منتخب عصری کتب
کا اضافہ ہو جن میں اسلامی معاشیات، بین الاقوامی تعلقات، میڈیا اسٹڈیز جیسے
موضوعات ہوں۔
4.
موادِ نصاب میں اجتہادی
پہلو کو شامل کیا جائے تاکہ طلباء نئی صورتِ حال میں شرعی رہنمائی کا ہنر سیکھیں۔
5.
نصاب میں مقامی ضروریات
اور عالمی تقاضوں کا توازن ہو۔
3.
تدریسی
طریقے (Teaching
Methods)
تدریس وہ اہم شعبہ ہے جو اہداف و مواد کے
مؤثر حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ تدریسی انداز میں درج ذیل جدید رجحانات اہم ہیں:
·
انفرادی تدریس
(Individualized Learning)
·
خود سیکھنے کا نظام
(Self-Learning)
·
عبوری مہارت
(Mastery Learning)
·
مسئلہ حل پر مبنی تدریس
(Problem-Solving Approach)
تدریس وہ بنیادی شعبہ ہے جو کسی بھی تعلیمی نظام
میں نصاب (Curriculum) اور اہدافِ تعلیم (Objectives of Education) کے حصول کا
عملی ذریعہ بنتا ہے۔ اسلامی تناظر میں تدریس کو محض معلومات کی منتقلی نہیں بلکہ
ایک دینی، اخلاقی، روحانی اور فکری تربیت کا عمل سمجھا جاتا ہے۔ مدارسِ اسلامیہ،
جو دینی علوم کے قلعے سمجھے جاتے ہیں، ان میں تدریسی طریقوں کی اہمیت کئی گنا بڑھ
جاتی ہے
اسلام میں تعلیم کا مقصد صرف معلومات فراہم کرنا
نہیں بلکہ انسان کی شخصیت، اس کے کردار اور اس کی روح کو سنوارنا ہے۔ قرآن و حدیث
میں تعلیم و تربیت کے جو اصول بیان ہوئے ہیں، وہ ہر دور میں رہنمائی کے قابل ہیں۔
·
اخلاصِ نیت: نبی اکرم ﷺ نے
فرمایا: "انما الأعمال بالنیات" یعنی اعمال کا دارومدار
نیت پر ہے۔ معلم و متعلم دونوں کے لیے خلوصِ نیت شرط ہے۔
·
رسول اکرم ﷺ بطورِ معلم: نبی ﷺ نے فرمایا: "إنما بعثت
معلماً" — "مجھے صرف معلم بنا کر
بھیجا گیا ہے" (ابن ماجہ)۔ آپ کا اندازِ تعلیم نہایت نرم، تدریجی، اور فطری
استعداد کے مطابق تھا۔
شیخ عبدالعزیز ابن بازؒ: آپ فرماتے ہیں کہ معلم کا کردار محض پڑھانے
تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ طلبہ کی اخلاقی، دینی، اور فکری تربیت کا ذمہ
دار ہے۔ وہ نرمی، رواداری اور حکمت کا نمونہ ہونا چاہیے۔شیخ صالح العثیمینؒ: ان کے مطابق
تدریس میں ترتیب، تکرار، اور عملی مشق بہت ضروری ہیں۔ تعلیم کو سمجھنے، اپنانے،
اور اس پر عمل کرنے کے مراحل سے گزارنا چاہیے۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ: تعلیم کو انسان سازی کا عمل سمجھتے تھے۔ ان
کے مطابق تدریس صرف لیکچر دینے کا نام نہیں بلکہ طلبہ کی سوچ، سوال کرنے کی
صلاحیت، اور تنقیدی فکر پیدا کرنا ایک معلم کی اصل کامیابی ہے۔مولانا شبلی نعمانیؒ:
"معلم
کو صرف بولنے والا نہیں بلکہ طلبہ کو سوال پر ابھارنے والا ہونا چاہیے۔" ان
کے مطابق تعلیم کا بہترین اسلوب وہ ہے جس میں طلبہ فعال (Active Participants) ہوں۔
اسلامی تدریسی طریقے
1.
تدرج: بتدریج علم
دینا سنتِ نبوی ہے، تاکہ طلبہ آسانی سے سیکھ سکیں۔
2.
حکمت اور موعظت: قرآن میں ارشاد
ہے: "ادعُ إلی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة"
(النحل:
125)
3.
سوال و جواب کا انداز: نبی ﷺ اکثر
صحابہ سے سوال کرتے تاکہ ان کی توجہ مرکوز ہو۔
4.
عملی تطبیق: عبادات،
اخلاقیات، اور معاملات کی عملی مشق۔
5.
طلبہ کی ذہنی سطح کا لحاظ: ہر طالب علم کی
قابلیت کے مطابق سکھانا۔
عصری تعلیمی تقاضے اور NEP 2020
بھارت کی قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP
2020) تدریس
میں ان انقلابی تصورات پر زور دیتی ہے:
·
Student-Centered
Learning: طلبہ
کو سیکھنے کا محور بنایا جائے۔
·
Experiential Learning: عملی مشاہدہ
اور تجربہ کی بنیاد پر تعلیم۔
·
Competency-Based
Assessment: صرف
زبانی امتحان کے بجائے مہارتوں کی بنیاد پر جانچ۔
·
ٹیکنالوجی کا استعمال: ڈیجیٹل تعلیمی
وسائل کو نصاب کا حصہ بنانا۔
·
Multilingualism: مادری زبان میں
تعلیم کی اہمیت۔
مدارس کے لیے قابلِ عمل تجاویز
1.
متنی مواد کے ساتھ فہم پر
زور
— صرف حفظ یا ترجمہ نہیں بلکہ مفہوم، سیاق و سباق اور عملی تطبیق
سکھانا۔
2.
مکالماتی اور سوال و جواب
پر مبنی تدریس — طلبہ کو سرگرم بنایا جائے۔
3.
مطالعہ، تحقیق، اور
پروجیکٹس
— طلبہ کو خود علمی جستجو کی طرف راغب کرنا۔
4.
تکنیکی وسائل کا استعمال — جدید وسائل
جیسے پروجیکٹر، آڈیو/ویڈیو لیکچرز وغیرہ سے تدریس کو مؤثر بنانا۔
5.
اساتذہ کی تربیت — مدرسین کے لیے
وقتاً فوقتاً تربیتی پروگرام۔
4.
تربیتی
سرگرمیاں
(Co-curricular Activities)
یہ سرگرمیاں نصاب کی روح
کو متحرک کرتی ہیں۔ اگر انہیں اسلامی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ کر کے مسجد، خاندان
اور ذرائع ابلاغ سے جوڑا جائے تو معاشرتی کردار سازی کا بہترین ذریعہ بن سکتی ہیں۔ تربیتی سرگرمیاں تعلیمی نصاب کا لازمی اور فعال حصہ ہیں جو طلبہ
کی شخصیت سازی، عملی صلاحیتوں کی نشوونما، اور نصاب کی علمی روح کو زندہ کرنے کا
ذریعہ بنتی ہیں۔ مدارسِ اسلامیہ کے پس منظر میں یہ سرگرمیاں دینی تعلیم کے ساتھ
ساتھ اخلاقی، فکری، اور جسمانی تربیت کا اہم جزو ہیں-اسلام میں تعلیم کا مقصد محض معلومات کا
حصول نہیں بلکہ انسان کی جامع تربیت ہے۔ تربیتی سرگرمیاں اس جامعیت کو ممکن بناتی
ہیں:
- اخلاقی و روحانی
تربیت: رسول اللہ
ﷺ کی زندگی میں تعلیم صرف کتابی نہیں بلکہ عملی تھی، جس میں اخلاقیات،
عبادات، اور سماجی رویوں کی مشق شامل تھی۔
- جسمانی اور ذہنی
نشوونما: حدیث میں
آتا ہے کہ "المؤمن القوي خیر وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف"
(صحیح مسلم) یعنی طاقتور مؤمن کمزور مؤمن سے بہتر ہے، اس لیے جسمانی سرگرمیاں
بھی اہم ہیں۔
- علمی فہم اور عملی
اطلاق: تعلیم کے
ساتھ ساتھ عمل کی تلقین کی گئی ہے تاکہ علم زندگی میں رنگ لے آ
علما کی آراءمولانا ابوالکلام آزادؒ
تربیتی سرگرمیوں کو شخصیت کی مکمل تشکیل کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک تعلیم
میں عملی تجربات اور سماجی خدمات کا بھی دخل ہونا چاہیے۔مولانا شبلی نعمانیؒ کا
تصور تھا کہ تعلیم صرف پڑھائی تک محدود نہیں بلکہ فکری مباحث، مشق اور سماجی تعاون
کے ذریعے بہتر ہوتی ہے۔ابن بازؒ اور شیخ صالح العثیمینؒ نے بھی اس بات پر زور دیا
کہ دینی مدارس میں جسمانی مشقیں، اخلاقی تربیت، اور عملی سرگرمیاں نصاب کا لازمی
حصہ ہونی چاہئیں تاکہ طلبہ کا کلّی طور پر کردار سنورا جائے۔
NEP 2020 اور تربیتی سرگرمیاں
قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) میں تربیتی سرگرمیوں کو
تعلیمی نصاب کے لازمی حصے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس پالیسی کے اہم نکات درج
ذیل ہیں:
- کل جہتی ترقی: تعلیمی
سرگرمیاں طلبہ کی ذہنی، جسمانی، اخلاقی، اور سماجی صلاحیتوں کو فروغ دیتی
ہیں۔
- تجرباتی سیکھنے پر
زور: کتابی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی سرگرمیاں طلبہ
کی تخلیقی اور فکری صلاحیتوں کو نکھارتی ہیں۔
- شمولیتی تعلیمی نظام: ہر طالب
علم کو موقع دیا جائے کہ وہ نصاب کے ساتھ مختلف تربیتی سرگرمیوں میں حصہ لے۔
- ٹیکنالوجی اور جدید
وسائل کا استعمال: تربیتی سرگرمیوں میں
جدید ٹیکنالوجی کو شامل کر کے انہیں مزید مؤثر بنایا جائے۔
مدارسِ اسلامیہ میں تربیتی سرگرمیوں کے عملی پہلو
مدارس میں تربیتی سرگرمیوں کو نصاب کے ساتھ ہم آہنگ
کرتے ہوئے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
1.
اخلاقی و روحانی تربیت کے
لیے جلسے، یادداشتیں، اور تقاریب
2.
مشکل مسائل پر مباحثے اور
ورکشاپس
3.
سماجی خدمات جیسے فلاحی
کام، صفائی مہم، اور غریبوں کی مدد
4.
جسمانی سرگرمیاں: کھیل
کود، یومیہ ورزش، اور دستکاری
5.
سائنس اور ٹیکنالوجی کی
ورکشاپس اور عملی تجربات
6.
5.
تعلیمی
ٹیکنالوجی (Educational
Technology)
تعلیمی ٹیکنالوجی آج کے
دور میں نصاب کی ترقی اور تدریسی عمل کو تیز، مؤثر اور دلچسپ بنانے کا اہم ذریعہ
بن چکی ہے۔ مدارسِ اسلامیہ میں جہاں روایتی طریقہ تعلیم رائج ہے، وہاں جدید تعلیمی
ٹیکنالوجی کو اپنانا نصاب کی روح کو زندہ کرنے، طلبہ کی دلچسپی بڑھانے، اور تعلیم
کے معیار کو بلند کرنے کے لیے ناگزیر ہو گیا ہے۔ اسلامی تعلیم میں علم کے حصول کی
حوصلہ افزائی اور جدید وسائل کے استعمال کی گنجائش موجود ہے.
قرآن و حدیث میں علم کی تلاش اور تدریس کی اہمیت کو
بارہا اجاگر کیا گیا ہے، اور "طلب العلم فريضة على كل مسلم" کی روشنی
میں جدید وسائل کا استعمال علم کے پھیلاؤ کا حصہ ہے۔ علماء کے خیالاتاسلامی
علماء نے ہمیشہ علم کے حصول کے لیے دستیاب وسائل کو اپنانے کی ترغیب دی ہے،
بشرطیکہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں۔شیخ ابن بازؒ اور شیخ صالح العثیمینؒ نے
جدید ٹیکنالوجی کو اسلامی تعلیمات کی ترویج کا ذریعہ قرار دیا ہے، بشرطیکہ اس کا
استعمال دینی اصولوں کے خلاف نہ ہو۔مولانا ابوالکلام آزادؒ نے تعلیم میں جدید علوم
اور طریقوں کو شامل کرنے پر زور دیا تاکہ طلبہ کو وسیع فکر اور جدید مسائل کا
ادراک ہو۔مولانا شبلی نعمانیؒ نے تنقیدی فکر اور تجزیہ کی اہمیت پر زور دیا، جو کہ
تعلیمی ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکن ہے۔شیخ ابن بازؒ نے تعلیم میں کمپیوٹر اور دیگر
جدید آلات کے استعمال کی حمایت کی، خاص طور پر دینی علوم کی ترویج کے لیے۔شیخ صالح
العثیمینؒ نے جدید تعلیم میں ٹیکنالوجی کے کردار کو سراہا، اور کہا کہ یہ طلبہ کی
سمجھ بوجھ بڑھانے کا مؤثر ذریعہ ہے۔
NEP 2020 میں تعلیمی ٹیکنالوجی کا
کردار
قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) میں تعلیمی ٹیکنالوجی کو
تعلیم کے ہر درجے پر اپنانے پر زور دیا گیا ہے، خاص طور پر:
·
آن لائن اور ڈیجیٹل لرننگ
کو عام کرنا تاکہ دور دراز علاقوں کے طلبہ بھی تعلیم سے مستفید ہوں۔
·
ملٹی میڈیا اور انٹرایکٹو
سسٹمز کے ذریعے تعلیم کو دلچسپ اور مؤثر بنانا۔
·
اساتذہ کی تربیت تاکہ وہ
تعلیمی ٹیکنالوجی کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکیں۔
·
تعلیمی مواد کی
ڈیجیٹلائزیشن تاکہ ہر طالب علم کو ذاتی رفتار سے سیکھنے کا موقع ملے۔
مدارسِ اسلامیہ میں تعلیمی ٹیکنالوجی کے فوائد اور
چیلنجز
فوائد |
چیلنجز |
روایتی تعلیم میں جدت
اور تازگی لانا |
روایتی تعلیم میں جدت
اور تازگی لانا |
طلبہ کی توجہ اور دلچسپی
میں اضافہ |
طلبہ کی توجہ اور دلچسپی
میں اضافہ |
دینی و دنیاوی علوم کی
ہم آہنگی اور یکجا تعلیم |
دینی و دنیاوی علوم کی
ہم آہنگی اور یکجا تعلیم |
معلومات تک آسان رسائی
اور تحقیق کی سہولت |
معلومات تک آسان رسائی
اور تحقیق کی سہولت |
6.
نصابی
نتائج کا جائزہ
(Evaluation of Curriculum Outcomes)
نصاب کے اثرات اور نتائج کی جانچ پڑتال ہر
ترقی یافتہ نصاب کی بنیاد ہے۔ ابتدائی تشریحی سوالات سے لے کر موضوعی امتحانات،
مشاہدہ، اور کیفیاتی طریقے — سب نصاب کی اصلاح اور ترقی میں مؤثر کردار ادا کرتے
ہیں۔
نصابی نتائج کا جائزہ تعلیمی نظام کی کارکردگی،
مؤثریت، اور معیار کو جانچنے کا اہم ذریعہ ہے۔ یہ عمل نصاب کے اہداف کے حصول کی
پیمائش، تدریسی عمل کی بہتری، اور طلبہ کی ترقی کی شناخت کے لیے نہایت ضروری ہے۔
مدارسِ اسلامیہ میں جہاں دینی اور دنیاوی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں نصابی
نتائج کا درست اور جامع جائزہ نصاب کی کامیابی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
اسلامی تعلیم کا مقصد جامع تربیت اور عمل کے ذریعے
کردار سازی ہے، اس لیے نصاب کے نتائج کا جائزہ صرف علمی کارکردگی تک محدود نہیں
بلکہ اخلاقی، روحانی، اور عملی پہلوؤں کا بھی معائنہ کرتا ہے:
·
قرآن و حدیث کی روشنی میں
علم کی جانچ اور اس کے عملی اطلاق پر زور دیا گیا ہے۔
·
حضور نبی اکرم ﷺ نے تعلیم
و تربیت کے مؤثر نتائج کے لیے مستقل نگرانی اور اصلاح کی ضرورت پر زور دیا۔
·
نصابی نتائج کی جانچ میں
طلبہ کے اخلاق، عملی صلاحیتوں، اور دینی فہم کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔
علماء کے خیالات :مولانا ابوالکلام آزادؒ نصابی نتائج کی جانچ
کو طلبہ کی مجموعی شخصیت کی ترقی کے تناظر میں دیکھتے تھے۔مولانا شبلی نعمانیؒ نے
نصاب کی مؤثریت اور طلبہ کے فکری معیار کو جانچنے کی ضرورت پر زور دیا۔شیخ ابن
بازؒ اور شیخ صالح العثیمینؒ نے تعلیم کی کارکردگی کی پیمائش کے لیے علمی اور عملی
دونوں معیار وضع کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
NEP 2020 اور نصابی نتائج کی جانچ
قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) میں نصاب کے نتائج کا
جائزہ لینے کے جدید طریقے اور معیارات درج ذیل ہیں:
·
مستقل اور جامع جانچ: تعلیمی نتائج
کو صرف امتحانات تک محدود نہ رکھ کر روزمرہ کے تعلیمی عمل کا حصہ بنانا۔
·
تخلیقی اور عملی قابلیت کی
پیمائش: صرف حفظ اور یادداشت نہیں بلکہ سمجھ بوجھ، تخلیقی صلاحیت، اور
مسئلہ حل کرنے کی مہارتوں کا جائزہ لینا۔
·
طلبہ کی کلّی شخصیت کی
نشوونما: نصابی نتائج میں اخلاقی، سماجی، اور جسمانی ترقی کو شامل کرنا۔
·
ٹیکنالوجی کا استعمال: ڈیجیٹل ٹولز
اور تجزیاتی سافٹ ویئر کے ذریعے تعلیمی کارکردگی کی مؤثر نگرانی۔
مدارسِ اسلامیہ میں نصابی نتائج کے جائزے کے طریقے
مدارس میں نصابی نتائج کا جائزہ درج ذیل طریقوں سے
لیا جا سکتا ہے:
1.
تحریری و زبانی امتحانات: دینی و دنیاوی
علوم کی سمجھ اور یادداشت کی جانچ۔
2.
عملی مشاہدہ: اخلاقی رویے،
عبادات کی پابندی، اور عملی اطلاق کا معائنہ۔
3.
پروجیکٹس اور تحقیق: طلبہ کی تخلیقی
صلاحیتوں اور تحقیقی مہارتوں کی جانچ۔
4.
اساتذہ کی رپورٹس: تدریسی عمل اور
طلبہ کی پیشرفت کا مسلسل جائزہ۔
5.
والدین اور کمیونٹی کی
رائے: طلبہ کی سماجی اور اخلاقی ترقی کا باہمی جائزہ۔
تیسرا باب: نصاب تعلیم کی ترقی کے عملی
میدان
1. نصاب کی تشکیل
(Curriculum Construction)
تاریخی طور پر نصاب، انسانی علمی ورثہ پر مبنی تھا۔
مگر جدید دور میں طلبہ کی انفرادی ضروریات، معاشرتی تقاضے، سائنسی ترقی اور اسلامی
مصادر کی روشنی میں ایک ہمہ گیر نصاب کی تشکیل ضروری ہے۔
اسلامی تصور تعلیم کے مطابق فطرت
(Fitrah) کو
مرکزی رہنمائی کا ذریعہ بنانا چاہیے۔
2. نصاب کا نفاذ
(Implementation)نصاب کا نفاذ ایک جامع عمل ہے جس میں اساتذہ، ناظمین، طلبہ،
والدین اور تعلیمی قائدین سب شامل ہوتے ہیں۔ مؤثر نفاذ کے لیے درج ذیل عناصر کلیدی
ہیں:
·
اساتذہ و رہنماؤں کی تربیت
·
طلبہ کی مسلسل رہنمائی
·
سرگرم اور ہمہ گیر تدریس
·
اسلامی ماحول کی فراہمی
3. نصاب کی ترقی
(Development)نصاب میں موجودہ تقاضوں کے مطابق تبدیلی اور بہتری، ترقی کا
لازمی حصہ ہے۔ ہر تعلیمی سطح پر مسلسل تجدید کی ضرورت ہے تاکہ نصاب مؤثر و بامقصد
رہے۔
4. نصاب کی تقویم
(Evaluation)تقویم کا عمل نہ صرف نتائج کی جانچ ہے بلکہ یہ نصاب کے ہر پہلو
کی اصلاح کا مؤثر ذریعہ ہے۔ جدید اقسام میں شامل ہیں:
·
Pre-assessment
·
Formative Assessment
·
Summative Assessment
·
Follow-up Evaluation
چوتھا باب: نصاب پر اثرانداز ہونے والے
بالواسطہ عوامل
1. اساتذہ و ماہرین کی
مہارتیں
اساتذہ کی علمی، تدریسی اور فکری تربیت بنیادی
ضرورت ہے۔ معلمین کی تربیت درج ذیل رجحانات پر ہونی چاہیے:
·
Lifelong Learning
·
سائنسی و اسلامی مہارتوں
کا امتزاج
·
اسلامی ثقافت سے آگہی
2. نظامِ تعلیم (Study
System)
دنیا میں تین بڑے نظام رائج ہیں:
·
سالانہ نظام
·
سمسٹر سسٹم
·
ماڈیولر سسٹم
(Credit System) ان کا مقصد تعلیمی فعالیت اور معاشرتی تقاضوں کی تکمیل ہے۔
نظامِ تعلیم (Study System): مدارسِ اسلامیہ
اور عصری تعلیمی نظاموں کا موازنہ
تعلیم کا نظام کسی بھی ملک یا ادارے کی تعلیمی ترقی
اور معیار کا بنیادی جزو ہوتا ہے۔ دنیا میں تعلیمی نظام کی مختلف اقسام رائج ہیں
جن میں سالانہ نظام، سمسٹر سسٹم، اور ماڈیولر سسٹم (Credit System) شامل ہیں۔ ہر نظام کا اپنا
مقصد تعلیمی فعالیت کو بڑھانا اور معاشرتی تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ مدارسِ اسلامیہ
میں روایتی طور پر ایک مخصوص طریقہ کار رائج ہے، مگر جدید تعلیمی تقاضوں کے پیش
نظر اس میں تبدیلی اور بہتری کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
دنیا میں رائج تین بڑے نظام تعلیم
1.
سالانہ نظام
(Annual System):
Ø
یہ نظام سب سے پرانا اور
عام ہے جہاں تعلیمی سال کے اختتام پر ایک جامع امتحان لیا جاتا ہے۔
Ø
اس میں طلبہ ایک طویل عرصے
تک نصاب پڑھتے ہیں اور پھر سالانہ امتحان میں حصہ لیتے ہیں۔
Ø
فوائد: طلبہ کو مکمل وقت
ملتا ہے کہ وہ نصاب کو اچھی طرح سمجھیں۔
Ø
نقائص: طویل عرصے تک نتائج
کا انتظار کرنا پڑتا ہے، اور یادداشت پر زیادہ انحصار ہوتا ہے۔
2.
سمسٹر سسٹم
(Semester System):
Ø
تعلیمی سال کو دو یا زیادہ
سمسٹرز میں تقسیم کیا جاتا ہے، ہر سمسٹر میں علیحدہ امتحانات ہوتے ہیں۔
Ø
اس نظام سے طلبہ کو چھوٹے
حصوں میں پڑھنے اور بہتر کارکردگی دکھانے کا موقع ملتا ہے۔
Ø
فوائد: وقتاً فوقتاً تشخیص
ہوتی ہے، طلبہ پر امتحانی دباؤ کم ہوتا ہے۔
Ø
نقائص: تدریس کی روانی
متاثر ہو سکتی ہے، انتظامی بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
3.
ماڈیولر سسٹم
(Credit System):
Ø
یہ جدید نظام ہے جس میں
کورسز کو ماڈیولز یا کریڈٹس کی شکل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
Ø
طلبہ اپنی رفتار اور
دلچسپی کے مطابق کورس مکمل کرتے ہیں اور کریڈٹس جمع کرتے ہیں۔
Ø
فوائد: لچکدار نظام، طلبہ
کی خود مختاری میں اضافہ، مختلف شعبوں کا انتخاب ممکن۔
Ø
نقائص: خود نظم و ضبط کی
ضرورت زیادہ، انتظامی پیچیدگیاں۔
مدارسِ اسلامیہ میں نظامِ تعلیم
·
روایتی طور پر مدارسِ
اسلامیہ میں سالانہ نظام زیادہ رائج رہا ہے، جہاں حفظ و تدریس کے امتحانات سالانہ
بنیاد پر ہوتے ہیں۔
·
مدارس کا نصاب زیادہ تر
دینی علوم پر مشتمل ہوتا ہے جس میں تدریس کے طریقے روایتی اور منہجِ درس نظامی کے
مطابق ہوتے ہیں۔
·
جدید تقاضوں کے تحت سمسٹر
یا ماڈیولر نظام کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے تاکہ تعلیم کو مزید مؤثر اور طلبہ کی
ضروریات کے مطابق بنایا جا سکے۔
اسلامی تعلیمات کے تناظر میں نظامِ تعلیم
·
اسلام میں علم کی ترغیب
اور اس کی جامعیت پر زور دیا گیا ہے، اس لیے تعلیم کا نظام ایسا ہونا چاہیے جو
طلبہ کی فکری، عملی، اور اخلاقی نشوونما کرے۔
·
نظامِ تعلیم میں لچک، استمراری
جائزہ، اور تدریس کے مؤثر طریقے شامل ہونے چاہئیں تاکہ علم کو نہ صرف حاصل کیا
جائے بلکہ عمل میں بھی لایا جائے۔
·
حضور نبی کریم ﷺ کی
تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم کا عمل مرحلہ وار اور مسلسل ہونا چاہیے، جو
سمسٹر یا ماڈیولر نظام کے قریب تر ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) اور نظامِ تعلیم
·
NEP 2020 تعلیم کے جدید
اور لچکدار نظام کی حمایت کرتی ہے، جس میں طلبہ کی استعداد کے مطابق نظام میں
تبدیلی کا امکان ہو۔
·
نصاب اور نظام کی تقویم کے
لیے مسلسل جائزہ اور تنقیدی روشنی ڈالی گئی ہے۔
·
مدارس میں بھی تعلیم کے
نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی سفارش کی گئی ہے، تاکہ طلبہ عالمی معیار
کی تعلیم حاصل کر سکیں۔
دنیا میں رائج تعلیمی نظاموں میں ہر ایک کا اپنا
منفرد کردار اور افادیت ہے۔ مدارسِ اسلامیہ میں روایتی سالانہ نظام کی جگہ جدید
اور لچکدار نظام کی ضرورت بڑھ رہی ہے تاکہ تعلیمی معیار کو بلند کیا جا سکے اور
طلبہ کی عملی و فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکے۔
3. خاندان کا کردار (Role
of the Family)
خاندان بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں
والدین کی شراکت، نصاب کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔
خاندان سماجی زندگی کی بنیادی اکائی ہے، جس کا
کردار فرد کی شخصیت سازی، تعلیم و تربیت، اور اخلاقی و روحانی نشوونما میں نہایت
اہم ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں خاندان کو معاشرتی استحکام اور تربیت کا مرکز
قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے خاندان کا کردار
·
قرآن و حدیث میں خاندان کی
اہمیت پر بارہا زور دیا گیا ہے، جہاں والدین اور بچوں کے حقوق و فرائض واضح کیے
گئے ہیں۔
·
خاندان بچوں کی ابتدائی
تعلیم و تربیت کا اولین ادارہ ہے، جہاں اخلاق، آداب، اور دینی تعلیم دی جاتی ہے۔
·
حضور نبی کریم ﷺ نے خاندان
کی مضبوطی اور آپسی محبت کو امت کی کامیابی کا راز قرار دیا ہے۔
·
اسلامی نظام میں خاندان کو
معاشرتی ذمہ داریوں کی ابتدا سمجھا جاتا ہے، جو فرد کو معاشرے کا کارآمد رکن بناتا
ہے۔
علماء کے نظریات:شیخ ابن بازؒ خاندان کو
اسلامی تعلیمات کے نفاذ کا بنیادی مرکز سمجھتے تھے اور اس کی تربیتی ذمہ داریوں پر
زور دیتے تھے۔مولانا ابو الکلام آزادؒ نے خاندان کو معاشرتی اصلاح کا سنگ بنیاد
قرار دیا، اور اس کی تعلیم و تربیت میں والدین کی اہمیت کو اجاگر کیا۔مولانا شبلی
نعمانیؒ نے خاندان میں دینی تعلیم کی ضرورت اور والدین کے کردار کو معاشرتی بہتری
کے لیے ضروری قرار دیا۔
خاندان کا تعلیمی کردار
·
خاندان میں ابتدائی تعلیم
و تربیت کی جاتی ہے، جو بچوں کی شخصیت کی بنیاد ہوتی ہے۔
·
والدین کا کردار بچوں کو
دینی و دنیاوی تعلیم میں راغب کرنا، ان کے رویوں کی نگرانی کرنا، اور اخلاقی تربیت
فراہم کرنا ہے۔
·
تعلیم کے حصول اور نصاب کی
تکمیل میں خاندان کا تعاون طلبہ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
معاشرتی اور ثقافتی پہلو
·
خاندان معاشرتی اقدار،
روایات، اور ثقافت کی منتقلی کا ذریعہ ہے۔
·
مضبوط خاندان معاشرتی
استحکام، فلاح و بہبود، اور اخلاقی اقدار کے تحفظ کی ضمانت ہوتا ہے۔
·
برصغیر اور سعودی معاشروں
میں خاندان کی اہمیت خاص طور پر نمایاں ہے جہاں اجتماعی زندگی اور آپسی تعاون کو
فوقیت دی جاتی ہے۔
جدید دور میں خاندان کا چیلنجز اور حل
·
جدید دنیا میں ٹیکنالوجی،
معیشتی مسائل، اور سماجی تبدیلیوں نے خاندان کی ساخت اور کردار پر اثرات مرتب کیے
ہیں۔
·
والدین کو چاہیے کہ وہ
بچوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کریں، اور دینی و اخلاقی تعلیم کو ترجیح دیں۔
·
تعلیمی ادارے اور مدارس
بھی خاندان کے تعاون کے بغیر مکمل اثر نہیں دے سکتے، اس لیے مشترکہ کوشش ضروری ہے۔
4. ذرائع ابلاغ
(Media)
میڈیا ایک مؤثر تعلیمی ذریعہ ہے۔ اگر یہ اسلامی
اقدار کے مطابق ہو، تو معاشرے میں فکری بیداری اور دینی شعور پیدا کیا جا سکتا ہے۔
آج کے دور میں ذرائع ابلاغ (میڈیا) تعلیم و تربیت
کا ایک انتہائی مؤثر اور وسیع وسیلہ بن چکے ہیں۔ میڈیا نہ صرف معلومات کی ترسیل کا
ذریعہ ہے بلکہ معاشرتی رویوں، فکری بیداری، اور دینی شعور کی تشکیل میں بھی مرکزی
کردار ادا کرتا ہے۔ خاص طور پر جب میڈیا اسلامی اقدار کے مطابق ہو تو یہ معاشرے
میں مثبت تبدیلی اور اصلاح کا باعث بنتا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے میڈیا کا کردار
·
اسلام میں علم و ہدایت کی
تبلیغ کا حکم ہے، اور میڈیا اس فریضے کی انجام دہی میں ایک جدید اور موثر ذریعہ ہو
سکتا ہے۔
·
قرآن و حدیث میں علم کی
ترغیب اور حقائق کی تبلیغ پر زور دیا گیا ہے، اور میڈیا کے ذریعے ان تعلیمات کو
عام کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
·
اسلامی میڈیا پلیٹ فارمز
اخلاقی حدود کی پاسداری کرتے ہوئے حقائق کو واضح اور سنجیدگی سے پیش کرتے ہیں تاکہ
فکری بیداری پیدا ہو۔
میڈیا کے مثبت پہلو
·
تعلیمی مواد کی ترسیل: ٹی وی، ریڈیو،
انٹرنیٹ، اور سوشل میڈیا تعلیمی پروگرام، دروس اور دینی محافل نشر کرتے ہیں۔
·
دینی شعور کی بیداری: اسلامی علوم و
فقہ، تاریخ، اور اخلاقیات کے حوالے سے آگاہی فراہم کرتے ہیں۔
·
معاشرتی اصلاح: مثبت پیغامات
کے ذریعے معاشرتی برائیوں کی نشاندہی اور اصلاح کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
·
ثقافتی تحفظ: اسلامی ثقافت و
تہذیب کو اجاگر کرنے اور محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
چیلنجز اور خطرات
·
میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ
استعمال جھوٹ، غلط معلومات، اور فحاشی کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔
·
بعض میڈیا چینلز غیر
اسلامی اقدار کو فروغ دے کر نوجوانوں میں اخلاقی بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔
·
اسلام میں میڈیا کو ہمیشہ
اخلاقیات اور شریعت کی حدود میں رہ کر چلنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) اور میڈیا
·
NEP 2020 نے تعلیمی شعبے
میں ڈیجیٹل میڈیا اور جدید تکنیکی ذرائع کے استعمال کو فروغ دیا ہے تاکہ تعلیم کو
سب تک پہنچایا جا سکے۔
·
مدارس اور تعلیمی اداروں
کے لیے میڈیا کا ذمہ دارانہ اور مؤثر استعمال لازم قرار دیا گیا ہے۔
5. تعلیمی سہولیات
(Educational Facilities)
مناسب عمارت، سہولیات، لائبریری، کھیل کے میدان،
روشنی، اور ہوا سب نصابی ترقی کے لازمی اجزاء ہیں۔
تعلیمی معیار اور نصابی ترقی کا انحصار صرف معلم یا
نصاب پر نہیں ہوتا بلکہ تعلیمی سہولیات بھی انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مناسب
عمارت، سہولیات، لائبریری، کھیل کے میدان، روشنی، اور ہوا جیسی بنیادی ضروریات
تعلیمی عمل کو مؤثر اور پر اثر بناتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں بھی تعلیم کے حصول
کے لیے ایک سازگار ماحول کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے تعلیمی سہولیات کی اہمیت
·
قرآن و حدیث میں علم کے
حصول کے لیے سازگار ماحول اور وسائل کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔
·
حضور نبی کریم ﷺ نے کہا کہ
علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اور اس فرض کی ادائیگی کے لیے مناسب وسائل کی
دستیابی ضروری ہے۔
·
مدارس میں جہاں دینی علوم
کی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں تعلیمی سہولیات کی دستیابی طلبہ کی علمی ترقی کے لیے
ناگزیر ہے۔
اہم تعلیمی سہولیات
1.
مناسب عمارات:تعلیم کے لیے
صاف ستھری، وسیع اور محفوظ عمارت کا ہونا ضروری ہے جہاں طلبہ بلا خوف و خطر تعلیم
حاصل کر سکیں۔عمارات میں کلاس رومز، دفاتر، اور دیگر تعلیمی سہولیات کا مناسب
انتظام ہونا چاہیے۔
2.
لائبریری:تعلیمی ترقی
میں کتابوں اور تحقیقی مواد کی اہمیت ناقابلِ تردید ہے۔مدارس میں معیاری اور متنوع
کتب کی لائبریری کا ہونا طلبہ کی علمی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
3.
کھیل کے میدان:جسمانی صحت اور
توانائی کی بحالی کے لیے کھیل کے میدان لازمی ہیں۔اسلامی تعلیمات میں صحت مند جسم
کو بھی دین کی خدمت کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
4.
روشنی اور ہوا:تعلیم کے لیے روشنی
اور ہوا دار ماحول اہم ہے تاکہ طلبہ کی توجہ اور صحت برقرار رہے۔قدرتی روشنی
اور تازہ ہوا سے تعلیمی عمل میں بہتری آتی ہے۔
علماء کی رائے:شیخ ابن بازؒ نے تعلیمی
ماحول کی صفائی اور سہولتوں پر زور دیا تاکہ طلبہ کو بہترین تعلیم دی جا
سکے۔مولانا ابو الکلام آزادؒ نے تعلیم کے لیے سازگار حالات کی اہمیت پر روشنی ڈالی
۔قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) اور تعلیمی سہولیات: NEP 2020نے تعلیمی اداروں میں جدید
سہولیات کے قیام اور بہتری کی سفارش کی ہے۔مدارس میں بنیادی ڈھانچے اور سہولیات کی
بہتری کے لیے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے تاکہ تعلیم کا معیار بلند کیا جا
سکے۔
اختتامی کلمات
نصابِ تعلیم محض علمی خاکہ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی منشور
ہے۔ اس کی ترقی صرف تعلیمی کامیابی کا ضامن نہیں بلکہ ایک باکردار، بامقصد، صالح
اور فعال اسلامی معاشرے کی تشکیل کا ذریعہ بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نصاب
سازی میں اسلامی اقدار، عصری تقاضوں، اور فکری ہم آہنگی کو مرکزیت دی جائے، تاکہ
امتِ مسلمہ دنیا و آخرت میں کامیابی کے اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کر سکے۔
مراجع:
1.
القرآن المجید
2.
حدیث صحیح البخاری،
صحیح مسلم
3.
ابن باز، عبدالعزیز۔
تعلیم و تربیت کے اصول، ریاض، 2010۔
4.
العثیمین، صالح۔ دینی
تعلیم کی حکمت، جدہ، 2012۔
5.
آزاد، ابوالکلام۔
تعلیم و تمدن، دہلی، 1935۔
6.
نعمانی، شبلی۔ مقالات
شبلی، لکھنؤ، 1920۔
7.
Ministry of
Education, India. National Education Policy 2020. New Delhi, 2020.
8.
ڈاکٹر محمود احمد شوق،
تطوير المناهج الدراسية
9.
عبدالرحمن صالح،
المنهاج الدراسي
10. ڈاکٹر
عبداللطیف فؤاد، المناهج: أسسها و تنظيمها و تقويم أثرها
تعليقات
إرسال تعليق
thank you very much .
welcome here