مدارسِ اسلامیہ ہند اور عصری قوانین و تقاضے: ایک تحقیقی جائزہ


    

 مدارسِ اسلامیہ ہند اور عصری قوانین و تقاضے: ایک تحقیقی جائزہ


 

ترتیبی نمبر

فہرستِ مضامین

صفحہ نمبر

1.   

مدارسِ اسلامیہ ہند اور عصری قوانین و تقاضے: ایک تحقیقی جائزہ

2

مدرسہ بورڈز اور ریاستی نظم

3

 عدالتی فیصلے (Court Judgments)

3

2.   

مدارس کا سروے، رجسٹریشن اور ریاستی حکومتوں کا کردار

5

 سروے کا پس منظر اور مقاصد

5

اہلِ مدارس کی ذمہ داریاں

6

سرکاری کمیشنز و رپورٹس

6

       (i) Sachar Committee Report (2006)

6

نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس(ii) (NCPCR)  Report (

7

نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020)

11

مدارسِ اسلامیہ اور نئی تعلیمی پالیسی: امکانات,خطرات اور خدشات

12

تجزیہ و بحث (Analysis & Discussion)

14

3.   

مدارسِ اسلامیہ کا غیر متحدہ نصاب اور تعلیمی مراتب: ایک علمی، تقابلی و قانونی تجزیہ

16

سعودی مدارس کا نظام: تقابلی جائزہ تجاویز

17

4.   

مرکزی حکومت کی مدارسِ اسلامیہ کی تعلیمی بہتری کے لیے اسکیم

19

 


مدارسِ اسلامیہ ہند اور عصری قوانین و تقاضے: ایک تحقیقی جائزہ

Islamic Madrasas in India and Contemporary Legal-Educational Demands: A Research-Based Study

خلاصہ (Abstract)

یہ تحقیقی مقالہ ہندوستان میں مدارسِ اسلامیہ کے تعلیمی، قانونی، اور سماجی تناظر کا تجزیہ کرتا ہے۔ مضمون میں مدارس پر ریاستی کنٹرول، عدالتی فیصلوں، کمیشن رپورٹس، اور National Education Policy 2020 کے اثرات کو تحقیق و تجزیہ کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی قدیم دینی نظام تعلیم اور جدید عصری تقاضوں کے امتزاج کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

کلیدی الفاظ (Keywords)

Madrasas, Madrasa Boards, NEP 2020, Sachar Committee, NCPCR, Court Judgments, Islamic Education, Curriculum Reform, Uttar Pradesh Government

تعارف (Introduction)

مدارسِ اسلامیہ برصغیر کی دینی و تعلیمی تاریخ کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ مگر حالیہ دہائیوں میں یہ ادارے ریاستی قانون، تعلیمی پالیسیوں اور سماجی بحث کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس مقالے کا مقصد مدارس کے موجودہ قانونی و تعلیمی چیلنجز کا تحقیقی مطالعہ پیش کرنا ہے۔

 

 

مدارس کا تعلیمی و فکری پس منظر

مدارس کا Dars-e-Nizami نظام علومِ دینیہ پر مشتمل ہے، جس میں تفسیر، حدیث، فقہ، منطق، عربی ادب شامل ہیں۔ مگر جدید مہارتیں (modern skills) اور عصری علوم (like Science, Math, English) اس نظام کا حصہ نہیں رہے، جس سے تعلیمی فاصلہ پیدا ہوا۔گزشتہ دہائیوں میں چند مدارس کی اس جانب  توجہ یقینا قابل ستائش ہے

مدرسہ بورڈز اور ریاستی نظم

مختلف ریاستی بورڈز جیسے:

  • Uttar Pradesh Madrasa Education Board (UPMEB)
  • West Bengal Board of Madrasa Education
  • Bihar State Madrasa Education Board

مدارس کی رجسٹریشن، امتحانات اور فنڈنگ کو کنٹرول کرتے ہیں، مگر ان کی نگرانی صرف منظور شدہ مدارس تک محدود ہے۔

عدالتی فیصلے (Court Judgments)

 (i)  الہ آباد ہائی کورٹ، 2023

مدارس میں صرف دینی تعلیم کو Right to Education (Article 21A) کی خلاف ورزی قرار دیا۔

 (ii) سپریم کورٹ، 2024

مدارس میں mainstream education کی شمولیت اور بچوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت پر زور دیا۔

حکومتِ اتر پردیش نے 2004 میں "اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ" نافذ کیا، جس کا مقصد ریاست میں مدارس کی تعلیم کو منظم کرنا، نصاب کی تیاری، امتحانات کا انعقاد اور اسناد کی فراہمی تھا۔ اس ایکٹ کے تحت مدارس میں 'مولوی' (میٹرک کے مساوی)، 'عالم' (انٹرمیڈیٹ کے مساوی)، 'فاضل' (بیچلر کے مساوی) اور 'کامل' (ماسٹرز کے مساوی) اسناد دی جاتی تھیں۔

الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ (مارچ 2024)مارچ 2024 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اس ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ: یہ ایکٹ سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔آرٹیکل 14 (برابری کا حق)، آرٹیکل 21 (زندگی اور آزادی کا حق) اور آرٹیکل 21-A (تعلیم کا حق) کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ UGC ایکٹ 1956 کے سیکشن 22 کی خلاف ورزی کرتا ہے، کیونکہ یہ مدارس کو اعلیٰ تعلیم کی اسناد دینے کا اختیار دیتا ہے جو صرف یونیورسٹیوں کو حاصل ہے۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ تمام مدرسہ طلباء کو رسمی تعلیمی نظام میں شامل کرے۔ 

سپریم کورٹ کا فیصلہ (نومبر 2024)سپریم کورٹ نے نومبر 2024 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو جزوی طور پر کالعدم قرار دیا اور قرار دیا کہ: اتر پردیش بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 آئینی ہے اور ریاست کو اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کو منظم کرنے کا حق حاصل ہے۔مدارس کو 'مولوی' اور 'عالم' کی سطح تک تعلیم دینے کی اجازت ہے۔تاہم، 'فاضل' اور 'کامل' جیسی اعلیٰ تعلیم کی اسناد دینا UGC ایکٹ کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ اعلیٰ تعلیم کی اسناد دینے کا اختیار صرف یونیورسٹیوں کو حاصل ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ حق ریاست کی جانب سے تعلیمی معیار کی نگرانی کے تحت ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد:  مدارس کو 'مولوی' اور 'عالم' کی سطح تک تعلیم دینے کی اجازت ہے۔فاضل' اور 'کامل' جیسی اعلیٰ تعلیم کی اسناد دینے کا اختیار مدارس کو حاصل نہیں ہے۔ریاست کو اقلیتوں کے تعلیمی اداروں کو منظم کرنے اور تعلیمی معیار کو یقینی بنانے کا حق حاصل ہے۔ یہ ایک اہم اور حساس موضوع ہے جس پر حالیہ برسوں میں خاصی بحث ہوئی ہے۔        محمد مبارک سَنابِلی مَدنی               ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ

27.03.2025

مدارس کا سروے، رجسٹریشن اور ریاستی حکومتوں کا کردار

ہندوستان میں دینی مدارس اسلامی تعلیم کے مراکز رہے ہیں جہاں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر علومِ دینیہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ ادارے عموماً غیر سرکاری و غیر منافع بخش بنیادوں پر اقلیتی برادریوں کی جانب سے چلائے جاتے ہیں۔

سروے کا پس منظر اور مقاصد:

2022میں اتر پردیش حکومت نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت "غیر تسلیم شدہ" (Unrecognized)مدارس کا سروے شروع کیا گیا۔ حکومت نے اس سروے کے چند اہم مقاصد بتائے:مدارس کی تعداد، تعلیمی سطح، مالی وسائل، رجسٹریشن، اور طلبہ کی معلومات حاصل کرنا۔یہ جانچنا کہ کہیں مدرسہ دہشت گردی یا غیر قانونی سرگرمیوں کا گڑھ تو نہیں۔بنیادی سہولیات (بجلی، پانی، بیت الخلا، لائبریری وغیرہ) کی موجودگی کا جائزہ لینا۔

دیگر ریاستوں کا طرزِ عمل:آسام: حکومت نے کئی مدارس کو بند کرنے کے احکامات جاری کیے، اور کئی کو اسکولوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ادارے "ریڈیکلائزیشن" میں ملوث ہیں۔

مہاراشٹر: مدارس میں غیر دینی مضامین کی تعلیم کو لازمی قرار دینے پر زور دیا گیا۔اتراکھنڈ و مدھیہ پردیش: مدارس کی تفصیلات طلب کی گئیں اور رجسٹریشن کا نظام سخت بنایا گیا۔بنگال: مدارس بورڈ کے ذریعے رسمی تعلیمی ڈھانچے میں مدارس کو شامل کیا گیا ہے، اور ریاست نے مدارس کو بجٹ میں حصہ بھی دیا۔

قانونی اور آئینی پہلو:آئینِ ہند کی دفعہ 30(1) کے تحت اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا بنیادی حق حاصل ہے۔تاہم ریاستی حکومتیں بنیادی معیارات اور نگرانی (regulation) کی مجاز ہیں تاکہ تعلیم کا معیار برقرار رہے۔

 

اہلِ مدارس کی ذمہ داریاں

1.  شفافیت اور رجسٹریشن:مدارس کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں، مالیات، نصاب، اور اسناد میں شفاف ہونا چاہیے۔رجسٹریشن کو خطرہ نہیں بلکہ تحفظ اور باعزت شناخت سمجھنا چاہیے۔

2.  عصری تعلیم کا انضمام:دینی علوم کے ساتھ ساتھ بنیادی عصری علوم جیسے ریاضی، سائنس، کمپیوٹر اور انگریزی کو نصاب میں شامل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔کئی مدارس اس سمت میں کام کر رہے ہیں۔

3.  داخلی احتساب (Self-Regulation):مدارس کے اپنے اندرونی احتساب کا نظام مضبوط ہونا چاہیے تاکہ بدعنوانی، بدنظمی یا شدت پسندی جیسے عناصر کی روک تھام ہو۔

4.  حکومت سے مکالمہ:حکومت کے ساتھ بامعنی مکالمہ اور تعاون ضروری ہے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو اور اقلیتوں کے تعلیمی ادارے محفوظ رہیں۔

مدارس، ہندوستان کے تعلیمی اور تہذیبی ورثے کا اہم حصہ ہیں۔ ریاستوں کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات اگر نیت میں خیر اور عمل میں عدل کے ساتھ ہوں تو اہلِ مدارس کو ان سے خائف ہونے کے بجائے اصلاح و شفافیت کا موقع سمجھنا چاہیے۔ تاہم، حکومتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اقلیتی اداروں کے آئینی تحفظات کا لحاظ رکھیں اور مذہبی حساسیت کو پامال نہ کریں۔

سرکاری کمیشنز و رپورٹس

(i) Sachar Committee Report (2006)

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ:مدارس سماجی طور پر الگ تھلگ ہیں۔ انہیں جدید تعلیم کے ساتھ جوڑا جانا چاہیے۔"سچر کمیٹی کی رپورٹ (2006) ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی حالت پر ایک جامع مطالعہ ہے، جس میں مدارسِ اسلامیہ کے کردار اور ان کی جدید کاری پر بھی توجہ دی گئی ہے۔

مدارس سے متعلق سچر کمیٹی کی اہم مشاہدات

1.  مدارس اور مکتب کا فرق:کمیٹی نے مدارس اور مکتب کے درمیان فرق واضح کیا۔  مکتب وہ تعلیمی ادارے ہیں جو مساجد سے منسلک ہوتے ہیں اور بنیادی دینی تعلیم فراہم کرتے ہیں، جبکہ مدارس میں مکمل دینی تعلیم دی جاتی ہے۔

2.  مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد:رپورٹ کے مطابق، قومی سطح پر مسلمانوں کے صرف 3% بچے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔  یہ اس تاثر کی نفی کرتا ہے کہ زیادہ تر مسلمان بچے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ 

3.  مدارس کی جدید کاری کی ضرورت:کمیٹی نے سفارش کی کہ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنسی، ریاضی اور انگریزی جیسے مضامین کو بھی شامل کیا جائے تاکہ طلبہ کو عصری تعلیم سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔  اس کے علاوہ، مدارس کی اسناد کو سول سروسز، بینکنگ اور دفاعی خدمات کے امتحانات کے لیے تسلیم کیا جائے۔ 

سفارشات برائے مدارس کی جدید کاری

1.    مدارس کی اسناد کی تسلیمیت:مدارس کی اسناد کو سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں تسلیم کیا جائے تاکہ مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ کو مساوی مواقع حاصل ہوں۔

2.    مدارس کو مرکزی دھارے سے جوڑنا:مدارس کو مرکزی تعلیمی دھارے سے جوڑنے کے لیے ان کے نصاب میں عصری مضامین شامل کیے جائیں اور انہیں ریاستی تعلیمی بورڈز سے منسلک کیا جائے۔

3.    اساتذہ کی تربیت:مدارس کے اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ طلبہ کو بہتر انداز میں تعلیم دے سکیں۔

سچر کمیٹی کی رپورٹ نے مدارس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی جدید کاری کی ضرورت پر زور دیا۔  رپورٹ میں دی گئی سفارشات کا مقصد مدارس کے طلبہ کو عصری تعلیم سے ہم آہنگ کرنا اور انہیں معاشرے میں مساوی مواقع فراہم کرنا ہے۔

(ii) NCPCR Report (2022)

غیر تسلیم شدہ مدارس میں بچوں کے استحصال، رجسٹریشن کے فقدان، اور child rights کی خلاف ورزی پر تشویش ظاہر کی۔ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (NCPCR) نے مارچ 2021 میں ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی جس کا عنوان تھا:

Guardians of Faith or Oppressors of Rights: Constitutional Rights of Children vs. Madrasas

یہ رپورٹ ہندوستان میں مدارسِ اسلامیہ کے تعلیمی نظام اور بچوں کے آئینی حقوق کے حوالے سے ایک جامع تجزیہ پیش کرتی ہے۔

رپورٹ کا پس منظر:ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 30 کے تحت اقلیتوں کو اپنی تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے۔  اسی طرح، آرٹیکل 15(5) کے تحت اقلیتی تعلیمی اداروں کو کچھ سرکاری تعلیمی قوانین سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، جیسے کہ "رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ" (RTE Act)۔  NCPCR نے اس رپورٹ میں اس استثنیٰ کے اثرات کا جائزہ لیا ہے، خاص طور پر یہ کہ آیا یہ استثنیٰ بچوں کے بنیادی تعلیمی حقوق پر منفی اثر ڈال رہا ہے یا نہیں۔

اہم مشاہدات اور نتائج

1.    مدارس میں رسمی تعلیم کی کمی:رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی مدارس میں بچوں کو رسمی تعلیم نہیں دی جاتی، جس سے وہ بنیادی تعلیمی حقوق سے محروم رہتے ہیں۔  یہ آئین کے آرٹیکل 21A اور RTE ایکٹ 2009 کی خلاف ورزی ہے، جو 6 سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی ضمانت دیتا ہے۔

2.    غیر مسلم بچوں کی مدارس میں تعلیم NCPCR: نے مشاہدہ کیا کہ کئی مدارس میں غیر مسلم بچے بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جو کہ آئین ہند کے آرٹیکل 28(3) کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ ان بچوں کے والدین کی رضامندی کے بغیر انہیں مذہبی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ پہلو قابل غور ہے اگر رپورٹ پر یقین کیا جائے تو ۔ مگر اس طرح کے حالات کا مشاہدہ ابھی تک میری منظر سے تو ہوا نہیں ہے ۔

3.    ریاستی فنڈنگ کی سفارشات NCPCR :نے سفارش کی کہ جو مدارس RTE ایکٹ کی تعمیل نہیں کرتے، ان کی ریاستی فنڈنگ بند کی جائے۔  رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف بورڈ کا قیام یا UDISE کوڈ حاصل کرنا RTE ایکٹ کی تعمیل کی ضمانت نہیں ہے۔

4.    بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں:رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ کچھ مدارس میں بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، جیسے کہ ناقص انفراسٹرکچر، غیر معیاری نصاب، اور بچوں کی جسمانی و ذہنی صحت کے لیے خطرات۔

سفارشات

تمام مدارس میں رسمی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ مدارس کو RTE ایکٹ کے تحت لایا جائے تاکہ بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔ غیر مسلم بچوں کی مدارس میں تعلیم کے حوالے سے والدین کی رضامندی کو یقینی بنایا جائے۔ ریاستی فنڈنگ صرف ان مدارس کو دی جائے جو RTE ایکٹ کی مکمل تعمیل کرتے ہیں۔

تنقید اور جوابی موقف

کئی علماء اور تعلیمی ماہرین نے NCPCR کی اس رپورٹ کو "متعصب" اور "گمراہ کن" قرار دیا ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ مدارس نہ صرف دینی تعلیم دیتے ہیں بلکہ کئی مدارس نے NCERT کے نصاب کو بھی شامل کیا ہے، جس سے طلبہ کو دینی اور عصری تعلیم دونوں فراہم کی جاتی ہیں۔  ان کا موقف ہے کہ مدارس بچوں کو اخلاقی، روحانی، اور تعلیمی ترقی کے مواقع فراہم کرتے ہیں، اور انہیں صرف مذہبی ادارے سمجھنا درست نہیں۔ NCPCR کی 2021 کی رپورٹ نے ہندوستان میں دینی مدارس کے نظام پر کئی اہم سوالات اٹھائے ہیں، خاص طور پر بچوں کے تعلیمی حقوق کے حوالے سے۔  رپورٹ کی سفارشات کا مقصد یہ ہے کہ تمام بچوں کو ان کے آئینی حقوق کے مطابق معیاری اور رسمی تعلیم فراہم کی جائے۔  تاہم، اس رپورٹ پر مختلف حلقوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، اور اس پر مزید مباحثے اور مشاورت کی ضرورت ہے۔

1.  حوالہ جات:

2.  NCPCR رپورٹGuardians of Faith or Oppressors of Rights

3.  ٹائمز آف انڈیاChild rights panel NCPCR advises states to stop funding madrasas

4.  کلیرین انڈیاScholars, Educators Say NCPCR Report on Madrasas is 'Biased and Misleading'

 

 

محمد مبارک سَنابِلی مَدنی           

   ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ

10.04.2025

 

 

نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020)

NEP 2020 نے تمام تعلیمی اداروں کو Equitable and Inclusive Education کا حصہ بنانے کی بات کی ہے۔ اس میں مدارس کے لیے تجویز دی گئی کہ:

·         بنیادی خواندگی (Literacy) اور عدد شناسی (Numeracy) سکھائی جائے۔

·         Equivalency Certification کی سہولت دی جائے۔

·         دینی و عصری تعلیم کو یکجا کیا جائے۔

 ہندوستان کی نئی تعلیمی پالیسی 2020 (NEP 2020) ایک ہمہ گیر تعلیمی خاکہ ہے، جس کا مقصد تعلیم کو جدید، ہمہ جہت، شمولیاتی اور ہنرپر مبنی بنانا ہے۔ اس پالیسی کے اعلان کے بعد ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں تبدیلی کی لہر آئی، جس نے دینی مدارس کو بھی متاثر کیا۔ اس تناظر میں مدارسِ اسلامیہ کی موجودہ حیثیت، ممکنہ تبدیلیاں، اور درپیش خطرات کا تجزیہ ضروری ہے۔

نئی تعلیمی پالیسی 2020 کا خاکہ (NEP 2020)

اہم نکات:

5+3+3+4 تعلیمی ڈھانچہ (Foundation to Higher Secondary) مادری زبان میں تعلیم کی ترغیب, کثیر لسانی (Multilingualism) کا فروغ, ہنر پر مبنی تعلیم (Skill Based Education) تکنیکی تعلیم (Digital Learning, Coding etc.) تمام تعلیمی اداروں کا ضم ہونا اور یکسانیت.

 

 

مدارسِ اسلامیہ اور نئی تعلیمی پالیسی: امکانات

1.  عصری مضامین کا انضمام: مدارس کو سائنس، ریاضی، انگریزی، کمپیوٹر سائنس جیسے مضامین شامل کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔مولوی/فاضل طلبہ جدید میدانوں میں داخل ہو سکتے ہیں۔

2.  سرکاری سرپرستی و فنڈنگ کا امکان: NEP میں اقلیتی اداروں کی ترقی پر زور دیا گیا ہے۔

مدارس اگر عصری تعلیم کو شامل کریں تو حکومت کی اسکیموں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں (مثلاً اسکالرشپ، انفراسٹرکچر گرانٹس)۔

3.  ڈگری و اسناد کی ہمہ گیری: اگر مدارس میں تعلیم NEP کے خطوط پر ہو تو "فاضل" اور "عالم" اسناد کو UG سطح پر تسلیم کیے جانے کا راستہ کھل سکتا ہے۔

4.  خواتین مدارس کا فروغ: پالیسی میں خواتین کی تعلیم پر زور ہے، مدارس اس موقع سے فائدہ اٹھا کر لڑکیوں کے لیے بھی اعلیٰ دینی و عصری تعلیم فراہم کر سکتے ہیں۔

خطرات اور خدشات

1.  یکساں نصاب کی آڑ میں مداخلت NEP:کے تحت اگر تعلیم کو مکمل طور پر یکساں بنایا گیا، تو دینی مدارس کے "مذہبی نصاب" پر قدغن لگنے کا خدشہ ہے۔عقائد و مذہب کی آزادی (آرٹیکل 25 اور 30) کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

2.  رجسٹریشن و نگرانی کا دباؤ: پالیسی کے نفاذ کے لیے مدرسوں پر رجسٹریشن، سروے اور مانیٹرنگ کا بوجھ بڑھ سکتا ہے۔حکومت کے کنٹرول میں آنے کا اندیشہ ھی تشویش پیدا کریگا۔

3.  اسناد کی نامنظوری: مدارس کی اسناد اگر NEP کے مطابق نہ ہوں تو اعلیٰ تعلیم یا ملازمت میں نامنظوری کا سامنا ہو سکتا ہے۔2024 میں بعض ریاستوں میں "فاضل" کو گریجویٹ کے برابر تسلیم نہ کرنے کے فیصلے اسی خطرے کی مثال ہیں۔

4.  مذہبی شناخت کا خطرہ: پالیسی کے یکساں ڈھانچے میں مدارس کی جداگانہ شناخت مٹنے کا خطرہ۔

5.  دینی مدارس کی ممکنہ حکمتِ عملی: مدارسِ اسلامیہ کو موجودہ حالات میں محتاط مگر فعال حکمت عملی اپنانا ہوگی۔

نئی تعلیمی پالیسی ایک طرف جہاں ترقی کے دروازے کھول سکتی ہے، وہیں اگر غفلت یا نااتفاقی برتی گئی مذہبی و تعلیمی خودمختاری پر کاری ضرب بھی بن سکتی ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ:مدارس عصری تقاضوں کے مطابق اپنی ساخت کو مضبوط بنائیں۔قانونی تحفظات کا ادراک رکھتے ہوئے اپنی شناخت کا تحفظ کریں۔حکومت کے ساتھ بامعنی مکالمہ کریں لیکن اپنی دینی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔

1)  حوالہ جات:

a.  National Education Policy 2020 – education.gov.in

b.  SC Judgment on Madarsa Act 2024 – sci.gov.in

c.   The Hindu, Indian Express Reports (2020-2024)

d.  Maulana Arshad Madani (Jamiat Ulema-e-Hind), Statements on NEP

e.  Madrasa Modernization Report, NCPCR (2021)

قدیم و جدید نظام کی ہم آہنگی:روایتی خوبیاں:

·         عربی زبان میں مہارت

·         اسلامی قانون (Shari‘ah) کا علم

·         دینی رہنمائی و تربیت

جدید تقاضے   English communication:     

·         Digital literacy

·         Skill-based vocational training

·         Legal awareness

8. تجزیہ و بحث (Analysis & Discussion)

مدارس پر بڑھتی ریاستی نگرانی انہیں تعلیم کے mainstream دھارے میں لانے کی کوشش کا حصہ ہے، مگر یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ دینی خودمختاری متاثر نہ ہو۔ اس لیے curriculum reform اور ریاستی گفتگو (dialogue) کے درمیان توازن ضروری ہے۔ برصغیر میں مدارسِ اسلامیہ کا کردار تاریخی، دینی، اور فکری اعتبار سے نہایت اہم رہا ہے۔ ان اداروں نے صدیوں تک اسلامی علوم کی خدمت کرتے ہوئے عالمِ دین، مفتی، محدث اور فقیہ تیار کیے۔ تاہم، موجودہ دور میں جب مسلمان سماجی، تعلیمی اور اقتصادی پسماندگی کا شکار ہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا مدارس صرف علماء پیدا کرنے پر اکتفا کریں یا انہیں عصرِ حاضر کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا ہوگا؟ اسی سوال کا جواب سچر کمیٹی رپورٹ (2006) میں تلاش کیا گیا، جس نے مدارس کی موجودہ حالت اور ان کے کردار کا جائزہ لیا۔

مدارس کا دعویٰ: "ہم صرف علماء پیدا کرتے ہیں"کئی مدارس کے سرپرست، اور منتظمین کا کہنا ہے کہ مدرسہ کا کام صرف عالم، مفتی اور حافظ پیدا کرنا ہے۔ دنیاوی تعلیم یا سرکاری ملازمت ہماری ذمہ داری نہیں۔"یہ نظریہ خالص دینی تعلیم کو مقصدِ اول قرار دیتا ہے، جو ایک حد تک درست اور ضروری ہے، کیونکہ دین کی حفاظت اور ترویج کے لیے علمائے کرام کا وجود ناگزیر ہے۔

سچر کمیٹی رپورٹ اور اس کا تناظر2006:میں جسٹس راجندر سچر کی زیرِ صدارت مرکزی حکومت نے مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی اور اقتصادی پسماندگی پر ایک جامع رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ نے یہ ثابت کیا کہ مسلمانوں کا بڑا حصہ تعلیمی لحاظ سے ملک کی دیگر اقلیتوں سے پیچھے ہے۔مسلمانوں کے صرف 3 فیصد بچے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔بیشتر مدارس صرف دینی تعلیم تک محدود ہیں، جس سے طلبہ روزگار کے لیے محدود مواقع رکھتے ہیں۔

 

مدارس کے بارے میں سفارشات:

مدارس کو عصری تعلیم سے جوڑا جائے۔انگریزی، ریاضی، سائنس جیسے مضامین نصاب میں شامل ہوں۔مدارس کی اسناد کو حکومت تسلیم کرے تاکہ طلبہ سرکاری و نجی اداروں میں ملازمت کے اہل ہوں۔

صرف عالم کیوں کافی نہیں؟:آج کا عالم صرف فتوے دینے والا نہ ہو بلکہ امت کے مسائل کا ماہر بھی ہو، جو:موجودہ دنیاوی چیلنجز کو دینی تناظر میں سمجھے۔تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی رہنمائی کرے۔اسلام اور جدید سائنس، معیشت، سیاست کے درمیان تعلق قائم کر سکے- امت کی ضرورت صرف علماء کافی نہیں، ہمیں ڈاکٹر، سائنس دان، سفارت کار، وکیل، انجینئر، صحافی بھی درکار ہیں۔اگر مدارس اس ضرورت کو نظر انداز کریں گے، تو قوم صرف ماضی کی تاریخ میں جیتی رہے گی، مستقبل کی تیاری نہ ہو سکے گی۔ مدارس کا وجود ملت کے دینی تشخص کا محافظ ہے، مگر موجودہ دور میں یہ ادارے علم کی جامع تعبیر کو قبول کریں۔ صرف عالم دین پیدا کرنا قابلِ ستائش ہے، مگر عصر حاضر کے عالم وہی ہوگا جو دین کے ساتھ دنیا کا بھی ادراک رکھتا ہو۔سچر کمیٹی کی سفارشات محض سرکاری دستاویز نہیں بلکہ امت کی آنکھ کھولنے والا آئینہ ہیں۔ اب وقت ہے کہ مدارس خود احتسابی کریں، اصلاح کی راہ اپنائیں، اور قوم کی نئی نسل کو صرف حافظ یا مفتی نہیں، عالمِ باعمل و عصری رہنما بنائیں۔

 

محمد مبارک سَنابِلی مَدنی

ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ

15.04.2025

 

 

مدارسِ اسلامیہ کا غیر متحدہ نصاب اور تعلیمی مراتب: ایک علمی، تقابلی و قانونی تجزیہ

 ہندوستان میں مدارسِ اسلامیہ کا نظام تعلیم ایک قدیم دینی و تہذیبی ورثہ ہے۔ تاہم، مدارس کا تعلیمی نظام نہ صرف منتشر ہے بلکہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف بھی۔ کسی مدرسے میں تعلیم کا دورانیہ چھ سال ہے تو کسی میں آٹھ یا دس سال۔ کہیں "منشی"، "مولوی"، "عالم"، "فاضل"، "کامل"، جیسے درجات ہیں تو کہیں "دورۂ حدیث"، "تخصص" وغیرہ۔ سرکاری مدرسہ بورڈ سے وابستہ مدارس کا طریقہ کار مختلف ہے اور نجی (غیر رجسٹرڈ) مدارس کا نظام الگ۔ اس تفریق نے حکومت کے لیے پالیسی سازی، شناخت اور اسناد کی توثیق کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔

§       مدارس کا غیر متحدہ نصاب-  داخلی تفریق کا جائزہ: درسِ نظامی مختلف مدارس میں مختلف شکلوں میں رائج ہے۔ کسی کے یہاں 6 سالہ کورس ہے تو کسی کے یہاں 8 یا 10 سالہ۔ ہر مدرسہ اپنے طریقے سے نصاب، درجات، اور کتابوں کا انتخاب کرتا ہے۔ تعلیمی مدارج کی تفریق: "منشی"، "مولوی"، "عالم"، "فاضل"، "ادیب"، "کامل"، "مفتی" جیسی ڈگریاں ایک مدرسے کی حیثیت میں اہم سمجھی جاتی ہیں، مگر حکومت یا دیگر ادارے ان کی کوئی معیاری ترتیب نہیں سمجھ پاتے۔

§       سرکاری اور غیر سرکاری مدارس  دو متوازی نظام:مدرسہ بورڈ کے ماتحت مدارس,ریاستی مدرسہ بورڈز جیسے یوپی، بہار، بنگال میں رجسٹرڈ مدارس جزوی عصری تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ ان کے ریکارڈ مرتب ہوتے ہیں لیکن یہ بھی ریاست بہ ریاست مختلف ہیں۔ خودمختار دینی ادارے: دیوبند، ندوہ، بریلوی، اہلحدیث، جماعت اسلامی وغیرہ کے ادارے اپنے نظام کے تحت کام کرتے ہیں، جن کی اسناد کا سرکاری نظام سے ربط نہیں ہوتا۔ چنانچہ قانونی و سرکاری دشواریاں, ایک چیلینز  بن جاتی ہیں

§       مدارس کا متنوع نصاب و غیر معیاری درجہ بندی ۔کوئی مرکزی ریکارڈ یا یکساں اسناد کا نظام نہیں ہے۔حکومت کے لیے نصاب کا تجزیہ، درجہ بندی اور تقابل کرنا انتہائی مشکل عمل ہے۔

§       اسناد کی غیر تسلیم شدگی:عدالتوں نے اکثر مدارس کی اسناد کو سرکاری ملازمتوں کے لیے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے (مثلاً یوپی ہائی کورٹ 2018، سپریم کورٹ 2021 کے فیصلے)۔

§       روزگار کی رکاوٹیں:مدارس کے فارغین کو سرکاری ملازمتوں، اسکالرشپ، اور اعلیٰ تعلیم میں داخلے کے لیے نئی اسناد حاصل کرنا پڑتی ہیں۔ان کی ڈگریوں کا کوئی قومی معیار نہیں، جس سے ان کا کیریئر محدود ہو جاتا ہے۔

سعودی مدارس کا نظام: تقابلی جائزہ

1.  مرکزی نصاب اور وزارتِ تعلیم کی نگرانی: سعودی عرب میں تمام مدارس وزارتِ تعلیم اور وزارتِ اسلامی امور کے تحت کام کرتے ہیں۔ نصاب مرکزی سطح پر تیار ہوتا ہے اور تمام مدارس اسی کے مطابق تعلیم دیتے ہیں۔

2.  عصری اور دینی علوم کا انضمام: دینی مدارس میں فقہ، تفسیر، حدیث کے ساتھ ساتھ جدید مضامین جیسے ریاضی، سائنس، انگریزی، اور کمپیوٹر کو لازمی حیثیت حاصل ہے۔

3.  سرکاری تسلیم شدہ اسناد:سعودی مدارس کی اسناد سرکاری جامعات میں تسلیم کی جاتی ہیں۔مدارس اور یونیورسٹیوں کے درمیان براہ راست ربط ہوتا ہے۔

4.  روزگار اور اعلیٰ تعلیم کے مواقع:مدارس کے فارغین آسانی سے یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکتے ہیں اور سرکاری نوکریوں کے لیے اہل تصور کیے جاتے ہیں۔

5.  تقابلی نتائج اور ضروریات:سعودی ماڈل میں یکسانیت، سرکاری نگرانی، اور جدید علوم کی شمولیت نے دینی طلبہ کو قومی دھارے سے جوڑ دیا ہے۔ہندوستانی مدارس میں داخلی انتشار، مختلف درجہ بندیاں، غیر معیاری اسناد، اور جدید تعلیم کی عدم شمولیت نے طلبہ کو محدود کر دیا ہے۔

تجاویز:

1.  متحدہ مدرسہ تعلیمی بورڈ:ایک ایسا غیر سرکاری مگر متحدہ پلیٹ فارم بنایا جائے جو تمام مکاتبِ فکر کے مدارس کا نمائندہ ہو۔اس پلیٹ فارم کے تحت مشترکہ نصاب، اسناد اور تعلیمی مدارج وضع کیے جائیں۔

2.  سرکاری ربط اور منظوری:اس بورڈ کی اسناد کو NIOS، UGC یا کسی قومی ادارے سے تسلیم کرایا جائے تاکہ طلبہ اعلیٰ تعلیم و روزگار میں شامل ہو سکیں۔

3.  عصری مضامین کی شمولیت:ریاضی، سائنس، انگریزی، اور کمپیوٹر جیسے مضامین کو مدرسہ نصاب میں شامل کیا جائے۔

مدارسِ اسلامیہ کا غیر متحدہ اور غیر مربوط تعلیمی نظام طلبہ کو تعلیمی اور پیشہ ورانہ لحاظ سے پیچھے دھکیل رہا ہے۔ سعودی ماڈل جیسے نظام سے سبق لیتے ہوئے ہندوستانی مدارس کو بھی مرکزی نصاب، یکساں اسناد، اور عصری تعلیم سے جوڑنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کے فارغین قومی ترقی میں مزید موثر کردار ادا کر سکیں۔

 

محمد مبارک سَنابِلی مَدنی

ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ

20.04.2025

 

 

 

 

 

 

مرکزی حکومت کی مدارسِ اسلامیہ کی تعلیمی بہتری کے لیے اسکیم

 (Scheme for Providing Education to Madrasas/Minorities) نافذ کی گئی ہے۔  یہ اسکیم دو ذیلی منصوبوں پر مشتمل ہے:

1.  . SPQEM (Scheme for Providing Quality Education in Madrasas) اس کا مقصد مدارس میں جدید مضامین جیسے سائنس، ریاضی، سماجی علوم، ہندی اور انگریزی کی تعلیم کو فروغ دینا ہے۔

2.  . IDMI (Infrastructure Development of Minority Institutes) یہ منصوبہ اقلیتی تعلیمی اداروں میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے ہے۔

SPQEM کے تحت: مدارس کو جدید مضامین کی تعلیم کے لیے مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔اساتذہ کو تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ جدید مضامین کو مؤثر طریقے سے پڑھا سکیں۔

IDMI کے تحت: اقلیتی اداروں کو بنیادی سہولیات جیسے کلاس رومز، لیبارٹریز، لائبریری، اور دیگر انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے امداد دی جاتی ہے-یہ اسکیم رضاکارانہ بنیادوں پر ہے اور اس کا مقصد مدارس کو قومی تعلیمی دھارے میں شامل کرنا ہے۔  اس کے تحت مدارس کو اپنی مرضی سے جدید تعلیم کو شامل کرنے کی آزادی ہے۔

SPQEM (Scheme for Providing Quality Education in Madrasas) اور IDMI (Infrastructure Development of Minority Institutions) کو مرکز نے ختم کر کے "پردھان منتری جن وکاس کاریہ کرم (PMJVK)" میں ضم کر دیا ہے تاکہ اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے تمام اسکیمیں ایک ہی پلیٹ فارم پر لائی جا سکیں۔

9. سفارشات (Recommendations)

  • مدارس میں mainstream subjects کی تدریس کو شامل کیا جائے۔
  • اساتذہ کی capacity building کے لیے تربیتی کورسز فراہم کیے جائیں۔
  • ریاستی ادارے مدارس سے dialogue-based engagement اپنائیں۔
  • مدارس کو Legal Literacy فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے حقوق اور حدود سے واقف رہیں۔

مدارسِ اسلامیہ ایک اہم دینی و سماجی ورثہ ہیں، جنہیں محض روایتی ادارے سمجھنا درست نہیں۔ موجودہ قوانین اور عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ان کی خودمختاری اور تعلیمی ارتقاء کے بیچ ایک علمی و فکری توازن کی شدید ضرورت ہے۔

حوالہ جات (References)

1.  Ministry of Education, National Education Policy 2020.

2.  Sachar Committee Report, Govt. of India, 2006.

3.  NCPCR Report on Madrasas, 2022.

4.  Allahabad High Court Judgement on Madrasa Education, 2024.

5.  Supreme Court Observations on Minority Education, 2023.

6.  Uttar Pradesh Madrasa Education Board Rules & Survey Report, 2023.

7.  F. Rahman, Islamic Education in Modern India, Oxford University Press

محمد مبارک سَنابِلی مَدنی

ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ

20.04.2025

تعليقات

المشاركات الشائعة من هذه المدونة

Mohd Mubarak profile

ہندوستانی نظام تعلیم: نئی تعلیمی پالیسی Indian National Education Policy (NEP)2020 از قلم: محمد مبارک سَنابِلی مَدنی ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ

भारतीय शिक्षा प्रणाली: नई शिक्षा नीति (NEP 2020) लेखक: मो. मुबारक मदनी, कल्याण अधिकारी, हरियाणा वक्फ बोर्ड