مدارسِ اسلامیۂ ہند اور نصابِ تعلیم: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ از قلم: محمد مبارک سَنابِلی مَدنی، ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ
مدارسِ اسلامیۂ ہند اور نصابِ تعلیم: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
از قلم: محمد مبارک سَنابِلی مَدنی، ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ
ترتیبی نمبر |
فہرستِ مضامین |
صفحہ نمبر |
1. |
مدارسِ اسلامیۂ ہند اور نصابِ تعلیم:
ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ |
2 |
2. |
نیو ایجوکیشن پالیسی 2020 اور اہلِ
مدارسِ اسلامیہ کی ذمہ داریاں |
5 |
3. |
مدارس کے نصاب میں تبدیلی: اہلِ علم
کی آراء کا جائزہ |
8 |
4. |
مدارسِ اسلامیہ کے لیے جامع تعلیمی
پالیسی
-ایک تصور (Comprehensive Education Policy for
Madaris-An Idea) |
11 |
مدارسِ اسلامیۂ ہند
اور نصابِ تعلیم: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ
از قلم: محمد مبارک سَنابِلی مَدنی،
ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ
خلاصہ (Abstract):
یہ مقالہ برصغیر میں
اسلامی مدارس کے تاریخی، علمی اور سماجی کردار کا جائزہ لیتا ہے اور ان کے نصابِ
تعلیم، خصوصاً "درسِ نظامی (Dars-e-Nizami)" کے ارتقاء، اس کے
خدوخال اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کے تناظر میں اس پر
تنقیدی نظر ڈالتا ہے۔ مقالے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مدارس کا موجودہ نصاب
علمی وقار کے باوجود جدید دور کے علمی، معاشرتی اور فکری چیلنجز سے عہدہ برا ہونے
کے لیے اصلاحات کا متقاضی ہے۔ تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مدارس کو اپنی روایت
کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اجتہادی بصیرت کے ساتھ نصابی ترقی کو بھی اپنانا ہوگا۔
مقدمہ (Introduction):
مدارسِ اسلامیہ
برصغیر کے مسلمانوں کے دینی، تعلیمی، اور فکری تشخص کے امین ہیں۔ ان اداروں نے
نوآبادیاتی دور میں نہ صرف دینی علم کا چراغ روشن رکھا بلکہ عوامی سطح پر اسلامی
شعور کو زندہ رکھا۔ تاہم، عصرِ حاضر میں ایک علمی بحث جاری ہے کہ آیا مدارس کا
نصاب وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔
درسِ نظامی: تاریخی
پس منظر (Historical Background of Dars-e-Nizami) :
درسِ نظامی کی بنیاد
اٹھارویں صدی میں فرنگی محل (لکھنؤ) کے معروف عالم علامہ نظام الدین سہالویؒ نے
رکھی۔ اس نصاب میں فقہ، اصول، منطق، فلسفہ، عربی زبان، ادب، تفسیر اور حدیث شامل
تھے۔ اس کا بنیادی مقصد ایسے علماء تیار کرنا تھا جو علمی و فکری محاذ پر اہلِ مغرب
سے مقابلہ کر سکیں۔
درسِ نظامی کی ساخت (Structure of Dars-e-Nizami):
درسِ نظامی کے مضامین
درج ذیل اہم شعبہ جات پر مشتمل ہیں:
1. فقہ (Islamic Jurisprudence): ہدایہ، قدوری، کنز
الدقائق
2. اصولِ فقہ (Principles of Jurisprudence):
نور الانوار، حسامی
3. منطق و فلسفہ (Logic and Philosophy): شرح تہذیب، سلم
العلوم، شرح مواقف
4. تفسیر (Qur'anic Exegesis): جلالین، بیضاوی
5. حدیث (Hadith Studies): مشکوٰۃ المصابیح، صحیح بخاری، مسلم،
ترمذی
6. زبان و ادب (Arabic Language &
Literature): صرف و نحو، بلاغت، مقاماتِ حریری
7. عقائد (Islamic Theology): شرح عقائد نسفی، عقیدہ طحاویہ
درسِ نظامی کی خوبیاں (Merits of Dars-e-Nizami):
- عربی زبان پر عبور, "اگرچہ مدارسِ اسلامیہ
ہند میں عربی زبان کی تعلیم دی جاتی ہے، تاہم یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ
ادارے طلباء کو عربی زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل کرنے کے قابل نہیں بنا
سکے۔ ماہرین کا خیال ہیکہ عربی زبان و ادب کے روایتی طریقہ تدریس اور رائج
الوقت نصاب تعلیم میں قدر ضروری ترمیم کی ضرورت ہے
- فقہی بصیرت اور استنباطی صلاحیت
- فکری تربیت اور استدلالی ذہن
- کردار سازی اور دینی مزاج
درسِ نظامی پر تنقیدی
نظر (Critical Perspective on Dars-e-Nizami):
1. عصری علوم (Modern Disciplines) کی عدم شمولیت
2. انگریزی زبان (English Language) سے دوری
3. تحقیق و تنقید کی کمی (Lack of Research &
Critique)
4. جدید فقہی موضوعات پر مواد کی کمی (Scarcity of
Contemporary Fiqh Discourse)
عصرِ حاضر کے تقاضے (Contemporary Demands):
- اسلامی مالیات (Islamic Finance)، انسانی حقوق (Human Rights)، بین المذاہب مکالمہ (Interfaith Dialogue) جیسے موضوعات کا
نصاب میں اضافہ
- طلبہ کو دعوتی و سماجی تربیت دینا
- تحقیق و تخلیق کی تربیت دینا
اصلاحی تجاویز (Suggestions for Reform):
1. نصاب میں عصری مضامین شامل کیے جائیں (Inclusion
of Modern Subjects)
2. اساتذہ کے لیے تربیتی ورکشاپس (Teacher Training Workshops)
3. بین المدارس نصابی ہم آہنگی (Inter-Madaris Curriculum
Coordination)
4. تحقیقی مراکز کا قیام (Establishment of Research
Centers)
نتیجہ
(Conclusion):
درسِ نظامی برصغیر کی
علمی تاریخ کا ایک تابناک باب ہے، مگر اس کی بقاء اسی وقت ممکن ہے جب وہ عصری
تقاضوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرے۔ مدارس صرف ماضی کی نمائندگی نہ کریں بلکہ حال
کا شعور اور مستقبل کی رہنمائی بھی فراہم کریں۔
مراجع (References):
1. الطحاوی، "العقیدۃ الطحاویہ"
2. نظام الدین سہالوی، "شرح تہذیب المنطق"
3. شبلی نعمانی، "الکلام"
4. ڈاکٹر محمود احمد غازی، "اسلامی تعلیم کا نظام"
5. ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن اعظمی، "مدارسِ اسلامیہ کا تعلیمی نظام
نیو ایجوکیشن پالیسی 2020 اور اہلِ
مدارسِ اسلامیہ کی ذمہ داریاں
از قلم: محمد مبارک سَنابِلی مَدنی، ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ
مقدمہ:
ہندوستان کی تعلیمی تاریخ میں
سال 2020 ایک اہم موڑ ثابت ہوا، جب مرکزی حکومت نے چالیس سال بعد نئی تعلیمی
پالیسی (New Education Policy - NEP) کا اعلان کیا۔ اس پالیسی نے
تعلیمی نظام کے ڈھانچے، مضامین، امتحانی طریقہ کار، زبان، اور نصاب کی تشکیل کو
جدید خطوط پر استوار کرنے کی بنیاد رکھ دی۔ اس نئی پالیسی کا اثر صرف اسکولوں یا
کالجوں تک محدود نہیں، بلکہ ملک کی تمام تعلیمی اداروں، بشمول مدارسِ اسلامیہ پر
بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں مدارس کے ذمہ داران کی یہ اولین
ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پالیسی کا گہرائی سے مطالعہ کریں اور اس کے مضمرات کو
سمجھیں۔
مدارسِ اسلامیہ: تعلیمی اور
دینی قیادت کے مراکز
مدارس اسلامیہ صرف قرآن، حدیث،
فقہ اور دینیات کے مراکز نہیں، بلکہ یہ مسلم معاشرے کی فکری، اخلاقی اور روحانی
تربیت گاہیں ہیں۔ یہاں سے فارغ ہونے والے طلبہ بعد میں مساجد، مدارس، یونیورسٹیوں
اور معاشرتی اداروں میں قیادت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ لہٰذا اگر نئی تعلیمی
پالیسی ان کی پیشہ ورانہ، تعلیمی اور سماجی مستقبل پر اثر انداز ہو رہی ہو تو
مدارس کو اس کا ردِ عمل علم، بصیرت اور حکمت کے ساتھ دینا ہوگا۔
نیو ایجوکیشن پالیسی کے اہم
نکات اور مدارس پر اثرات
نیو ایجوکیشن پالیسی کی چند
نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
1. Multidisciplinary Education – ہر طالبعلم کو ایک ہی وقت میں
مختلف مضامین پڑھنے کی آزادی دی گئی ہے۔
2. Skill-based Curriculum – صرف نظریاتی تعلیم کے بجائے
عملی مہارت (skills) پر زور۔
3. Vocational Training – دسویں جماعت سے پہلے طلبہ کو
پیشہ ورانہ تربیت دینے کا منصوبہ۔
4. Mother Tongue as Medium – ابتدائی تعلیم مادری زبان میں
دینے کی تجویز۔
5. Religious Institutions کی تعلیم میں شمولیت – پالیسی میں مذہبی اداروں کا الگ
ذکر، گو کہ مبہم انداز میں کیا گیا ہے، مگر مستقبل میں اس پر ضوابط یا قوانین بننے
کا امکان ہے۔
یہ تمام نکات مدارس کے لیے
سنجیدہ غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں، خاص طور پر جب ریاستی سطح پر دینی اداروں کے
اندراج، سروے، اور integrated نصاب کے نام پر مداخلت کی فضا
بن رہی ہو۔
مدارس کے ذمہ داران کی ذمہ
داریاں
1. مطالعہ
اور فہم حاصل کریں:
مدارس
کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ NEP 2020 کی مکمل دستاویز کا گہرا مطالعہ
کریں، ماہرین تعلیم، وکلاء اور تعلیمی منصوبہ سازوں سے مشورہ لیں تاکہ حقیقت کو
افواہوں سے الگ کر سکیں۔
2. طلبہ
کے مستقبل کو محفوظ بنائیں:
اگر NEP کے ذریعے عصری تعلیم یا پیشہ
ورانہ مہارت کی ضرورت بڑھتی ہے، تو مدارس کو اپنے طلبہ کے لیے ایسے مضامین کا نظم
کرنا چاہیے جو دینی تشخص کے ساتھ دنیاوی ترقی کی راہیں کھولیں۔
3. نصاب
کی اصلاح اور اضافے:
مدارس
اگر چاہیں تو اپنے دینی نصاب کے ساتھ کچھ منتخب عصری مضامین (جیسے انگریزی، حساب،
کمپیوٹر، اور اخلاقیات) کو مناسب حد تک شامل کر سکتے ہیں تاکہ طلبہ کسی بھی قومی
امتحان یا ملازمت میں پیچھے نہ رہیں۔
4. قانونی
پہلو پر نظر:
اگر
حکومت NEP کے بہانے مدارس کی خود مختاری میں دخل اندازی کرے، تو مدارس
کے ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ قانونی ماہرین سے مشورہ لے کر اپنے اداروں کے آئینی
حقوق کا دفاع کریں.
اس
موضوع پر تفصیل سے علیحدہ گفتگو کرونگا ۔ ان شاء اللہ
خلاصہ اور تجویز
NEP 2020 محض ایک تعلیمی منصوبہ نہیں
بلکہ ایک فکری تبدیلی کی علامت ہے۔ اس میں خیر بھی چھپی ہے اور خطرات بھی۔ اگر
مدارس کے ذمہ داران بصیرت کے ساتھ اس کا مطالعہ کریں، تو وہ اس سے فائدہ بھی اٹھا
سکتے ہیں اور اپنے اداروں کی دینی شناخت کا تحفظ بھی کر سکتے ہیں۔ہمیں جذبات سے ہٹ
کر حکمت و فہم سے فیصلہ کرنا ہوگا، کیونکہ دینی وراثت کے ساتھ ساتھ طلبہ کا دنیاوی
مستقبل بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے۔
مدارس کے نصاب میں تبدیلی: اہلِ علم کی آراء کا جائزہ
از قلم: محمد مبارک سَنابِلی مَدنی،
ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ
برصغیر میں دینی مدارس نے صدیوں سے اسلام کے علوم و فنون کی ترویج و اشاعت
میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ تاہم بدلتے وقت اور بدلتی سماجی و تعلیمی ضروریات کے
پیش نظر مختلف اہلِ علم نے مدارس کے نصاب (Curriculum)
میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ ان میں مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ شبلی
نعمانی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، اور دیگر قابل ذکر
شخصیات شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی آراء کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے:
مولانا ابوالکلام
آزادؒ کی رائے
مولانا ابوالکلام
آزاد جدید و قدیم علوم کے جامع عالم تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ مدارس کو صرف فقہی
اور کلامی مناظروں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ایسے جامع نصاب کی تشکیل کی جائے جس
میں:
·
سائنس، جغرافیہ،
تاریخ، فلسفہ اور دیگر دنیاوی علوم کی بھی تدریس ہو۔
·
طلبہ میں تحقیقی اور
تنقیدی ذہنیت پیدا کی جائے۔
·
عربی اور اردو ادب کے
ساتھ ساتھ انگریزی پر بھی عبور ہو تاکہ مسلمان جدید دنیا سے ہم آہنگ ہو سکیں۔
انہوں نے
"الہلال" اور "البلاغ" جیسے اپنے جرائد کے ذریعے علمی تحریک
پیدا کی اور مسلمانوں کو فکری پسماندگی سے نکالنے کی کوشش کی۔
علامہ شبلی نعمانیؒ
کی رائے
شبلی نعمانی نے
دارالعلوم ندوۃ العلماء (لکھنؤ) کی بنیاد اسی مقصد سے رکھی کہ:
·
مدارس کے نصاب میں
ادب، تاریخ اور فلسفہ جیسے مضامین شامل کیے جائیں۔
·
مروجہ نصاب
(Dars-e-Nizami) میں جو غیر متعلقہ اور طویل مباحث ہیں، انہیں مختصر کیا
جائے۔
·
طلبہ کو تحریر و
تقریر کی تربیت دی جائے تاکہ وہ قوم کی رہنمائی کر سکیں۔
·
ان کا ماننا تھا کہ
محض متون پڑھانے سے علم حاصل نہیں ہوتا، بلکہ طلبہ کو عقلی و عملی زندگی کے لیے
تیار کرنا ضروری ہے۔
ان کی کتابیں جیسے
"سیرت النبیؐ"، "المامون"، "الفاروق" وغیرہ دینی
اور ادبی معیار کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔
مولانا سید سلیمان
ندویؒ کی رائے
سید سلیمان ندوی نے
شبلی نعمانی کی تعلیمی فکر کو آگے بڑھایا۔ ان کا خیال تھا:
·
مدارس کو تاریخ اور
سیرت کے میدان میں خصوصی مہارت پیدا کرنی چاہیے۔
·
طلبہ کو تحقیقی و
تنقیدی صلاحیتوں سے آراستہ کیا جائے۔
·
مدارس کو صرف
"مولوی" بنانے کے بجائے فکری قائد تیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
مولانا مناظر احسن
گیلانیؒ کی رائے
مولانا گیلانی نے
دارالعلوم دیوبند میں بھی تعلیم حاصل کی اور جدید تعلیم یافتہ طبقے سے بھی تعلق
رکھا۔ ان کی رائے تھی کہ:
·
دینی نصاب کو معاصر
چیلنجز سے ہم آہنگ کیا جائے۔
·
مدارس کے طلبہ کو
معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی علوم سے بھی آگاہی دی جائے۔
·
قرآن و سنت کی روح کو
سمجھ کر تدریس کی جائے، نہ کہ صرف ظاہری الفاظ پر زور دیا جائے۔
مشترکہ نکات و تجاویز
ان تمام اہلِ علم کی آراء میں کچھ مشترکہ نکات درج ذیل ہیں:
·
نصاب میں سہولت،
جامعیت اور عصر حاضر سے ہم آہنگی ہو۔
·
صرف فقہ اور کلام پر
زور نہ ہو، بلکہ سیرت، تاریخ، ادب، فلسفہ، سائنس وغیرہ کا مطالعہ بھی ہو۔
·
تحریر و تقریر کی
تربیت دی جائے تاکہ طلبہ قوم کے فکری و علمی قائد بن سکیں۔
·
مدارس کو سماجی
تبدیلی کا مرکز بنایا جائے، نہ کہ محض عبادات اور جزئیات کا مرکز۔
یہ شخصیات صرف تنقید ہی نہیں کرتیں، بلکہ انہوں نے مدارس کو جدید تقاضوں کے
مطابق ڈھالنے کی سنجیدہ کوششیں کیں۔ آج بھی اگر دینی مدارس ان افکار کو اپنائیں،
تو وہ نہ صرف دینی رہنماؤں کو تیار کریں گے بلکہ جدید دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ
کرنے والے مصلحین، مفکرین اور قائدین بھی پیدا ہوں گے۔
30-2-2025
مدارسِ اسلامیہ کے لیے جامع
تعلیمی پالیسی
(Comprehensive
Education Policy for Madaris)
از قلم: محمد مبارک سَنابِلی مَدنی، ویلفیئر آفیسر، ہریانہ وقف بورڈ
یہ حقیقت ہے کہ مدارس دینی قلعے
ہیں اور عصری ادارے ترقی کی سیڑھیاں۔ لیکن ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے ترقی
ممکن نہیں۔ نئی تعلیمی پالیسی کی اصلاحات جہاں جدید اداروں کے لیے ایک روشن راستہ
ہیں، وہیں مدارس کے لیے بھی یہ ایک آئینہ ہے کہ وہ خود کو وقت کے مطابق بہتر کریں۔
تبدیلی صرف مجبوری نہیں، بلکہ
بقا کی شرط ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں علم، کردار اور قیادت کے میدان
میں نمایاں ہوں تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم کے امتزاج سے مزین کرنا ہوگا۔
1. تعلیمی وژن (Vision Statement)
مدارسِ اسلامیہ کو ایک ایسا
تعلیمی مرکز بنانا جہاں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر کے سائنسی، لسانی، معاشی
اور اخلاقی مضامین میں بھی مہارت دی جائے تاکہ طالب علم ایک باعمل عالمِ دین، باشعوراور باصلاحیت
شہری کے طور پر ابھرے۔
2. بنیادی اصول (Core Principles)
- تعلیم کا مقصد شخصیت سازی،
روحانی تربیت، اور سماجی شعور پیدا کرنا ہے۔
- دینی و عصری علوم میں
توازن۔
- شمولیتی (inclusive) اور متنوع
(diverse) تعلیمی ماحول۔
- سیکھنے پر مبنی (learner-centric) اور تحقیقی نظامِ تعلیم۔
3. نصابی اصلاحات (Curricular Integration)
الف: دینی تعلیم
- درسِ
نظامی
کا بنیادی ڈھانچہ برقرار رکھا جائے۔
- عقائد، فقہ، تفسیر، حدیث،
لغت، منطق، بلاغت وغیرہ۔
ب: عصری مضامین کی شمولیت
- انگریزی (English Language)سائنس (Science)ریاضی (Mathematics)
- سوشل اسٹڈیز (Social Studies)کمپیوٹر تعلیم (Digital Literacy)
- انٹر فیتھ ڈائیلاگ (Interfaith Studies)اسلامی معاشیات و مالیات (Islamic Economics and Finance)
4. کثیر لسانی تدریس (Multilingual Education)
- تدریس اردو، عربی اور
انگریزی میں ہو۔
- انگریزی میں بول چال،
ترجمہ اور تحریری تربیت پر زور۔
- مادری زبان میں ابتدائی
تعلیم۔
5. تدریسی طریقہ کار (Pedagogical Reforms)
- تحقیق اور تجزیے پر مبنی
سیکھنے کا نظام (Inquiry-Based Learning)
- گروہی بحث، منصوبہ سازی،
اور عملی مشق۔
- e-learning، audiovisual اور
interactive learning tools کا استعمال۔
6. اساتذہ کی تربیت (Teacher Training & Development)
- باقاعدہ TTP
(Teacher Training Programmer)
- عصری اور دینی علوم کے
ماہرین کے درمیان تعاون
- تدریس کی جانچ کے لیے
سالانہ ورکشاپس
7. تشخیصی نظام (Assessment System)
- روایتی امتحانات کے ساتھ Continuous
and Comprehensive Evaluation (CCE)
- زبانی امتحان، پروجیکٹ
ورک، اور اوپن بک ٹیسٹ
- کارکردگی کا تجزیہ تربیتی
بنیادوں پر
8. ڈیجیٹل انفراسٹرکچر (Digital Infrastructure)
- Smart Boards، Tablets، اور Digital
Libraries
- Online Classes اور Video Lectures کی سہولت
- کمپیوٹر لیبز اور بنیادی IT Skills کی تربیت
9. ادارہ جاتی اصلاحات (Institutional Reforms)
- مدارس کو NIOS,
Jamia Millia, یا State Boards سے
منسلک کیا جائے۔
- رجسٹریشن اور سرکاری شناخت
لازمی ہو
- مالی شفافیت اور سالانہ
تعلیمی رپورٹ کی پابندی
- اسناد کا اعتراف (Accreditation)
·
مدارس کی اسناد کو UGC/NTA یا دیگر تعلیمی اداروں کے مساوی بنانے کے
لیے کوششیں کی جائیں تاکہ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم و روزگار میں رکاوٹ نہ ہو۔
10. تحقیقی مراکز (Research & Innovation Centers)
- Islamic
Research Council کا قیام
- مدارس کے طلبہ کے لیے
تحقیقی جرنلز اور سیمینارز
- نصابِ تعلیم کی مسلسل
تجدید اور بہتری
11. طلبہ کی ترقی (Student Development & Welfare)
- Vocational Training، Life Skills، اور Career
Counseling
- Scholarships اور
تعلیمی قرضہ جات کی سہولت
- ذہنی صحت، کردار سازی، اور
قائدانہ تربیت
12. نگران ادارہ (Regulatory & Coordinating Body)
- Central
Madarsa Education Board (CMEB)
- صوبائی سطح پر Madarsa
Curriculum Council (MCC)
- قومی اور ریاستی حکومت سے
ہم آہنگی
یہ پالیسی مدارس کے کردار کو
صرف ماضی کے محافظ کے بجائے حال و مستقبل کے قائد کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ وقت کا
تقاضا ہے کہ مدارس اسلامیہ علمی مرکز بن کر ابھریں جہاں علمِ وحی اور علمِ کائنات
دونوں کا حسین امتزاج ہو۔05-03-2025
تعليقات
إرسال تعليق
thank you very much .
welcome here